Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Inteha Pasandi Ka Ilaj Kaisay Mumkin Hoga?

    Inteha Pasandi Ka Ilaj Kaisay Mumkin Hoga?

    بنیادی نوعیت کا سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں نفرت، تعصب اور اس کے نتیجے میں تشدد کی فکر کیسے آگے بڑھی۔ کیا وجہ ہے کہ ہم پرامن انداز میں اپنے معاملات کو حل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ تنازعات کا ابھرنا ایک فطری امر ہوتا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہوتی ہے کہ ہم مجموعی طور پر تنازعات سے کیسے نمٹتے ہیں۔

    پاکستان میں نفرت، عدم برداشت اور بدلہ لینے کی سوچ اورفکر گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف طبقات میں بہت زیادہ غالب نظر آتی ہے۔ حکومتی سطح پر سیاسی تضادات کے نتیجے میں لوگوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی سیاست بڑھ رہی ہے۔ یہ سب کچھ جو ہمیں مختلف منفی شکلوں میں قومی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارا قومی بیانیہ یا نصاب لوگوں میں یکجہتی، محبت اور عدم تفریق کو پھیلانے میں ناکام ہوا ہے۔ طاقت کی حکمرانی کا نشہ ریاست، حکومت سے لے کر نچلی سطح تک موجود تمام سیاسی، سماجی اورانتظامی اداروں میں غالب نظر آتا ہے۔

    مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی فریق اپنی غلطیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ قومی وطیرہ بن چکا ہے کہ اپنے حصے کی غلطیوں کو دوسروں پر ڈال کر خود کو معصوم ظاہر کرو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سب ایک دوسرے پر الزامات لگاکر مسئلہ کے حل کے بجائے اس میں اور زیادہ بگاڑ کو پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ماضی میں حکومتی اور سیاسی سطح پر ہمارے بڑے فریقین نے جو بڑے سیاسی فیصلے خود کیے یا ان کو یہ فیصلے کسی دباؤ کی صورت میں کرنے پڑے وہ نفرت کے ماحول کو بنانے کا سبب بنے ہیں۔ کیا ہم ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی سوچ سے عاری ہیں؟ کیونکہ یہ جو ماتم کی سیاست ہے اس سے کیسے باہر نکلا جائے اوراس کی کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔

    یہ جو اے پی ایس کے واقعے کے بعد ہم نے بیس نکاتی قومی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا۔ یہ قومی سطح کا بیانیہ بنیادی طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے معاملات سے نمٹنے کا تھا۔ حکومت کی سطح سے یہ کوشش ہونی تھی کہ نیشنل ایکشن پلان کے ایجنڈے کو ملک کے بڑے سیاسی، انتظامی، قانونی، اصلاحاتی ایجنڈے کے ساتھ جوڑ کر ایک ایسا قومی بیانیہ کو ترتیب دیا جائے گا جو معاشرے میں نفرت کے مقابلے میں امن اوررواداری کی سیاست کو فروغ دے گا۔ لیکن ہماری سابقہ اورموجودہ سطح پر جو وفاقی اورصوبائی حکومتیں ہیں سب فکری انحطاط کا شکار ہوکر قومی بحران میں شدت پیدا کررہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور رائے عامہ بنانے والے اداروں کی ترجیحات میں معاشرے کی سیاسی اورسماجی طرز پر تشکیل نو اورنئی سوچ و فکر کو اجاگر کرنا شامل ہی نہیں۔ کیونکہ معاشرے کی تقسیم اورنفرت کا کھیل ایک سطح پر ان کے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بھی جڑا ہوتا ہے۔

    ہمارا تعلیمی نصاب چاہے اس کا تعلق رسمی یا غیر رسمی تعلیم سے ہو یا مدارس میں دی جانے والی تعلیم سے اس کے نتیجے میں جو کچھ نئی نسل میں پیدا ہورہا ہے وہ کافی سوچ بچار کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ کیونکہ نئی نسل میں جو غصہ یا نفرت ہے اس کی وجہ جہاں ہمارا تعلیمی نظام ہے، ہم اس نئی نسل کے سامنے مثبت انداز میں آگے بڑھنے یا ان کے لیے مثبت ترقی کے مواقعے پیدا نہیں کرسکے ہیں۔

    یہ جو نئی نسل میں غصہ، نفرت اور بغاوت یا بدلہ لینے یا سماج میں بہتری پیدا کرنے کے بجائے لاتعلقی کی سوچ ہے اس کی وجہ ملک میں رائج سیاسی اورانتظامی بنیادوں پر حکمرانی کا وہ نظام ہے جو لوگوں میں مایوسی پیدا کرتا ہے۔ محض نوجوان نسل پر غصہ نکالنا اوریہ ثابت کرنا کہ وہ پیدا ہی شدت پسند ہوئے ہیں درست فکر نہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ نئی نسل میں جو انتہا پسندی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں اس کی وجہ قومی سطح پر ہماری مجموعی سیاسی، سماجی، معاشی اور عدم انصاف پر مبنی نظام ہے۔

    نفرت یاتعصب کی سیاست کی ایک وجہ معاشرے کا کلچر، آرٹ، شاعری، ڈراما، فلم سمیت ایسے عمل جو ذہنی سطح پر لوگوں کی فکر میں اعتدال پسندی پیدا کرتے ہیں وہ معاشرے میں ناپید ہوگئے ہیں۔ یہاں جو ڈرامے، فلمیں، شاعری سمیت جو کچھ ہورہا ہے اس میں خود انتہا پسندی کو پھیلایا جاتا ہے اور ہماری فلمیں تشدد پر مبنی اوران عوامل کو ہیروز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ جو ذہنوں کو امن اور رواداری کے ساتھ جوڑنے کی جنگ ہے۔

    اس میں آرٹ اور کلچرل کو بنیاد بنا کر ڈراموں، فلموں اور شاعری کی مدد سے لوگوں کی ذہن سازی کی تشکیل نو کرنی ہوگی۔ تعلیمی اداروں کو اس جنگ میں ایک بڑا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا، ان اداروں کا کام ڈگری بانٹنے سے بڑا ہونا چاہیے اوروہ کام ایک نئے بیانیہ کی تشکیل نو میں علمی و فکری مواد سمیت نئی قیادت پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ ایسا مواد جو نفرت پھیلاتا ہو یا وہ لوگ یا ادارے جو نفرت کے پھیلاو کا سبب بن رہے ہیں ان کے خلاف ہر سطح پر مضبوط مزاحمت درکار ہے۔

    یہ جو کچھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر چل رہا ہے اوراس میں جس انداز سے نفرت کے کھیل کو بنیاد بنایا گیا ہے اور جو ایک دوسرے کے خلاف ہر سطح پر سیاسی، مذہبی اورسماجی منافرت کے فتوے اوران کے ذاتی عقائد پر حملے یا شکوک و شبہات پیدا کرکے ان کی زندگیوں کو مشکل بنانے کا عمل ہے اس کے خلاف ایک موثر اورمثبت انداز میں جنگ لڑنی ہوگی۔ اس کام میں علمائے کرام، مذہبی جماعتیں، مذہبی قیادت اور مذہب سے لگاؤرکھنے والے اہل دانش کا بڑا کردار بنتا ہے کہ وہ اس انتہا پسندی پر مبنی رجحانات میں اضافہ کے خلاف خود کو بھی منظم کریں اور دوسروں کو منظم کرکے ایک ایسی سوچ اور فکر کو آگے بڑھائیں جو معاشرے میں انتہا پسندی اور پر تشدد رجحانات کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرسکے کیونکہ یہ ان کی بڑ ی قومی خدمت ہوگی۔

    جب ہمیں پرتشدد رجحانات پر مبنی سیاسی، سماجی اور مذہبی رویے یا واقعات دیکھنے اورسننے کو ملتے ہیں تو یقینی طور پر یہ واقعات معاشرے کی عملی ساکھ پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں۔ یہ ہی واقعات دنیا میں ہمارے لیے بدنامی کا بھی سبب بنتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اس لیے مسئلہ کسی ایک فریق پر الزام دینے سے حل نہیں ہوگا۔

    اس انتہا پسندی، پر تشدد رجحانات یا تشدد کے کلچر کو ماننا ہوگا کہ یہ ہماری ایسی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے معاشرے کی تصویر خطرناک ہوگئی ہے اوراس کا علاج تلاش کرنا ہوگا۔ اس جنگ میں نئی نسل کو ہراول دستہ بنایا جاسکتا ہے لیکن ہم کو پہلے نئی نسل کے مسائل کو سمجھ کر حل کرنے کی طرف بڑی پیش رفت بھی کرنا ہوگی، کیونکہ ان کی شمولیت ہی ملک میں پرامن ترقی، معاشرہ اور لوگوں میں ذمے داری کا احساس پیدا کرنے کی امید پیدا کرسکتی ہے، مگر اس کے لیے طاقت ور فریقین کو حکومتی اورادارہ جاتی سطح پر اپنے ماضی اورحال کے رویوں کو خیر آباد کہہ کہ نئی سوچ اورفکرکی قیادت کرنا ہوگی، جو پرامن معاشرے کی ہر سطح پر عکاسی کرسکے۔