پاکستان میں تعلیم ایک بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ پرائمری، سیکنڈری یا ہائر ایجوکیشن ہو سب ہی ایک کمزور حالت میں نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہماری ریاستی و حکومتی ترجیحات کا فقدان ہے۔ اگرچہ پرائمری تعلیم ایک اہم نکتہ ہے اور اس ملک میں ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن تو نظر آتا ہے، مگر کوئی پرائمری تعلیم کی ترویج کا کمیشن دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ اس وقت ایک مسئلہ ہماری جامعات کا ہے۔
2002میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے مقابلے میں ہم نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا تجربہ کیا او راس ادارے کو ایک خود مختار ادارے کے طور پر متعارف کروایا گیا اور اس تجربے کے باوجود ہماری ہائر ایجوکیشن کے معیارات پر کئی طرح کے بنیادی نوعیت کے سوالات موجود ہیں۔
یونیورسٹی کی سطح پر سینیٹ کا ایک ادار ہ موجود ہوتا ہے جس کی سربراہی وائس چانسلر کرتا ہے۔ لیکن اس میں تین یا کہیں ایک صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ڈال کر عملا اس میں سیاسی مداخلت کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے اجلاس کی صدارت عملی طو رپر وائس چانسلر کی بجائے وزیر تعلیم ہائرایجوکیش کرتا ہے، یعنی وائس چانسلر وزیر تعلیم، ممبران اسمبلی اور سیکریٹریوں کی موجودگی میں کیسے آزادانہ بنیادوں پر خود فیصلہ کرسکتاہے۔
اب حال ہی میں پنجاب حکومت کی جانب سے ایک مجوزہ ایکٹ Public Sector Amendment Act 2020 کو سامنے لانے کی بات کی جارہی ہے۔ اگرچہ وزیر تعلیم برائے ہائر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کے بقول یہ ابھی ابتدائی مسودہ ہے او رجامعات سے اس پر پہلے مشاورت ہوگی اورپھر اس کو لایا جائے گا۔ اس ایکٹ کے تحت جامعات کے ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ اول اس ترمیم کے تحت سر چ کمیٹی وائس چانسلر کے انتخاب کے وقت کسی بھی ایسے شخص کو انٹرویو کے لیے بلاسکتی ہے جس نے اس پوزیشن کے لیے درخواست بھی نہ دی ہو۔
دوئم اسی مسودے میں وائس چانسلر کو سول سرونٹ قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اسے کسی بھی وقت پیڈا جیسے قانون کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سوئم وائس چانسلر کی کارکردگی کا سال میں دو بار جائزہ لیا جائے گا اور اس کی رپورٹ وزیر اعلی کو بھیجی جائے گی۔ چہارم اس مسودہ میں وائس چانسلر کو سنڈیکیٹ کی صدارت سے ہٹانے کی تجویز دی گی ہے، اب وزیر اعلی کی سفارش پر چانسلر کسی بھی ریٹائرڈ جج یا سول سرونٹ یا ریٹائرڈ وائس چانسلر کو سنڈیکیٹ کی صدارت کے لیے کہہ سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف کارکردگی کی بات کی جارہی ہے اور ستم ظریقی یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن خود اپنے کارکردگی کے اشاریہ کی تیاری کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ جامعات یا وائس چانسلر کی کارکردگی کے اشاریہ ترتیب دے گی، ممکن نظر نہیں آتا۔ اسی طرح چانسلر کا جامعات کی بہتری میں کیا کردار بنتا ہے یہ خو دایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
پنجاب کی جامعات میں کئی دہایؤں سے سینیٹ کے اجلاس ہی منعقد نہیں ہوئے۔ معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر ممتاز انور کے بقول اس بات کی تصدیق ہوچکی ہے کہ مجوزہ ترمیم کا مقصد جامعات کی آزادی او رخود مختاری کو ختم کرنا ہے۔ اسی طرح سنڈیکیٹ میں حاصل وائس چانسلرز کے قانونی اختیارات کو تبدیل کرتے ہوئے ان کے سروں پر "چیرمین سنڈیکیٹ " کے نام سے ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور جج صاحبان کی تعیناتی سے خود مختار جامعات کے انتظامی ڈھانچہ میں متعدد قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ جامعات کے تناظر میں ایک طرف وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دوسری طرف صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن او راسی طرح صوبوں میں صوبائی حکومت اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن یا صوبائی حکومت اور جامعات کے درمیان ایک بڑا ٹکراو نظر آتا ہے جومسائل کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔
اسی طرح یہ سمجھنا ہوگا کہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ یا جج کیسے جامعات کے داخلی نظام کو سمجھ سکتا ہے۔ کیا ہم کسی سابق وائس چانسلرکو کسی عدالت یا کسی محکمہ کا سربراہ بناسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا، ہمیں ان ہی لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہوگا جو واقعی تعلیم وتدریس اوراسی شعبہ میں انتظامی تجربہ رکھتے ہوں۔ اکیڈمک کونسل یا اساتذہ کی اسٹاف ایسوسی ایشن کو مضبوط بنا کر بھی ہم بہتری کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔ مگر " حکومتی مداخلت یا کنٹرول کی طرف پیش قدمی " ان جامعات میں سیاسی مداخلت ہوگی۔
کیونکہ جب بھی حکومت کسی تیسرے فریق کو جامعات میں لائے گی تو اس کا واضح مطلب سیاست کرنے کے سواکچھ نہیں ہوگا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بیوروکریسی نے حکومت کو یہ باور کروایا ہوا ہے کہ وائس چانسلرز بے لگام ہوگئے ہیں یا ان کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں، اس کا حل ان کو کنٹرول کرنا ہی ہوگا۔ پاکستان میں ہائر ایجوکیشن پر کام کرنے والے ایک معروف تھنک ٹینک انٹر یونیورسٹی کنسورشیم کے سربراہ مرتضی نور کے مطابق بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ اس حالیہ مجوزہ ترمیم یا ایکٹ کے پیچھے مقصد ہائر ایجوکیشن کی بہتری کم اور ان کو سیاسی طور پر کنٹرول کرنا زیادہ لگتاہے۔
یہ جو کچھ کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے وہ بے وقت کی راگنی ہے۔ پہلے ہی جامعات کے بجٹ میں کمی سے جامعات بحران کا شکار ہیں یا وہ وینٹی لیٹرز پر ہیں۔ ایسے میں حکومت پنجاب جو بھی کچھ کرنا چاہتی ہے وہ اول تو باہر سے لوگوں کو لانے کے تجربے سے گریز کرے او راگر ان کے ذہن میں کچھ خاکہ ہے تو وہ شفاف اندازمیں سب فریقین سے مشاورت سے آگے بڑھے یہ ہی درست طریقہ ہوگا۔