عمران خان پاپولر سیاست کے حامی ہیں، ان کی حکومت یا طرز حکمرانی میں ہمیں حزب اختلاف کی سیاست کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ عمران خان کے مخالفین یا سیاسی پنڈت بھی اس نکتہ کو بیان کرتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست میں جذباتیت یا ٹکراؤ کی پالیسی کا غلبہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو دن کی چھٹی کے بعد جو تقریر کی اس میں بھی ٹکراؤ، مزاحمت یا آسانی سے سمجھوتہ نہ کرنے کی پالیسی کو بالادستی نظر آئی۔ یہ تقریر ظاہر کرتی ہے کہ عمران خان حکومت میں ہونے کے باوجود آسانی سے ان معاملات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے جو ان کی سیاسی سوچ کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ ان کے بقول وہ فائٹر ہیں اور ہار کر بھی جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ایسا نکتہ ہے کہ اس سے ان کے سیاسی عزائم کو سمجھا اورپرکھا جا سکتا ہے۔
یقینی طور پر وزیر اعظم عمران خان اپنی حکمرانی کے معاملات سے نالاں نظر آتے ہیں۔ وہ واحد وزیر اعظم ہیں جو اپنی حکومتی ناکامیوں کا کھل کر اعتراف بھی کرتے ہیں۔ ان کے بقول حکمرانی کے معاملات کو شفافیت اورفعالیت کے ساتھ چلانے میں ان کو مافیا کا سامنا ہے۔ یہ مافیا انفرادی سطح پر بھی ہیں اوراجتماعی سطح پر بھی مختلف اداروں کے درمیان ان کا گٹھ جوڑ ہے جو حکمرانی کے نظام میں شفافیت یا جوابدہی پیدا کرنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو چار بنیادی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول ان کی مخالف سیاسی قوتیں ہیں جو ان کو سیاسی یا اقتدار کے منظر سے دورکرنا چاہتی ہیں۔ دوئم ان کا مسئلہ معاشی صورتحال میں بہتری پیدا کرنا اور عام آدمی کی توقعات کو پورا کرنا۔ سوئم اپنی اتحادی جماعتوں کو حکومت کا حصہ دار قائم رکھنا، چہارم حکومت اور اداروں کے درمیان رضا مندی پر مبنی پالیسی کے تاثر اور عملی شکل کو قائم کرنا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان کی سیاست کی بنیاد کرپشن کے خاتمہ اورکڑا احتساب تھا۔ ان کے بقول وہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے نظریاتی ساتھی اورخود بھی وہ نواز شریف کو بغیر کسی شرط کے باہر علاج کے لیے بھیجنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے بقول ان کی کابینہ کے بیشتر افراد نواز شریف کو باہر جانے کی کسی بھی طور پر اجازت دینے کے حامی نہیں تھے۔ وزیر اعظم عمران خان کے لب ولہجہ میں جو تلخی یا مایوسی ہے اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ بہت سے معاملات سے خوش نہیں۔
سیاسی پنڈتوں کے بقول نواز شریف کے معاملے پر وزیر اعظم عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ بھی نظر آیا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ اس معاملے پر حکمت عملی کا ٹکراؤ تھا۔ عمران خان حکومت کے بارے میں یہ منطق دی جاتی ہے کہ اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کافی اہم آہنگی ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین تو عمران خان پر براہ راست الزام لگاتے ہیں وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ہی اقتدار کی سیاست کا حصہ بنے ہیں۔ بہت سے لوگ چوہدری برادران کی حالیہ سرگرمیوں اور میڈیا میں فعال انداز سے نواز شریف کے حق میں بیان بازی کو بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہی سیاسی کارڈ سمجھتے ہیں۔
یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حالیہ تقریر میں صاف لفظوں میں پیغام دیا ہے کہ وہ موجودہ جاری صورتحال سے خوش نہیں۔ عدلیہ کو یہ پیغام دینا کہ وہ اس تاثر کی نفی کرے کہ ملک میں طاقتور اورکمزور کے لیے دو مختلف قوانین ہیں اور سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کو چیلنج کرنا کہ وہ ان کا ہر سطح پر مقابلہ کریں گے، بہت کچھ سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
بنیادی طورپر عمران خان کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کی کرپشن، بدعنوانی اور کڑے احتساب کے بیانیہ کو اس حد تک مضبوط بنادیا ہے کہ ان کو لگتا ہے کہ اگر اس میں جھول آیا یا اس تاثر کو تقویت ملی کہ حکومت یا تو سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہوئی ہے یا بے بس ہے دونوں صورتوں میں ان کی پاپولر سیاست کو ضرب لگے گی۔ نواز شریف کے بغیر شرط باہر جانے پر بھی جو ردعمل وزیر اعظم یا وزیروں نے دیا ہے وہ بھی عملی طور پر اپنے ووٹ بینک کو تاثر دینا ہے کہ ہم نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، بلکہ عدالتی فیصلہ پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
یہ بات بجا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اصل خطرہ اپنے سیاسی مخالفین سے نہیں ہے ان کا بڑا مسئلہ بلاول، زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی خان یا محمود خان اچکزئی نہیں ہیں۔ بلکہ ان کو خطرہ طاقت کے مراکز سے ہے جو ان کو ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں یا سمجھوتے کی طرف دکھیل رہے ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کو کھل کر حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تو وہ دوسرا متبادل راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
اگرچہ فوری طور پر جو لوگ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بڑی سیاسی مہم جوئی اوراس کے نتیجے میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھ رہے ہیں، اس کے فوری طور پر امکانات نہیں ہیں اورنہ ہی یہ کوئی بڑی سیاسی تبدیلی پیدا کرے گا۔ لیکن حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوستی یا ناراضگی کا پہلو کبھی بھی ابھر سکتا ہے اوران کا براہ راست تعلق مختلف فیصلوں سے ہوسکتا ہے، مگر اچھی بات یہ ہے کہ طاقت کے مرکز اوروزیر اعظم عمران خان دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہیں اورساتھ چلنے کی صلاحیت بھی۔ اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کو بخوبی انداز ہے کہ ان کی حکومت اتحادیوں کی بنیاد پر کھڑی ہے، اس لیے وہ بھی فوری بڑی مہم جوئی سے گریز کریں گے۔
نواز شریف کے جانے کے بعد یہ امکان موجود ہے کہ مستقبل قریب میں آصف زرداری کو بھی طبی بنیادوں پر ملک سے باہر بھیجا جاسکتا ہے اور اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کا طرز عمل مفاہمت سے زیادہ جارحانہ ہوگا۔ کیونکہ وہ حال سے زیادہ مستقبل کی پیش قدمی کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ سیاست کے مراکزکے ساتھ ان کا ٹکراؤ ہوسکتا ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ کابینہ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہمیں اپنی حکمرانی کے نظام کو موثر بنانے کے لیے جارحانہ پالیسی اختیار کرنا ہوگی اور گوں مگوں کی کیفیت سے نکل کر عوامی ریلیف کو بنیاد بنا کر اپنی سیاسی طاقت کو اور زیادہ طاقتور بنانا ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں عمران خان کی حکومت کا چیلنج معاشی بحران کو درست میں آگے بڑھانا ہے اوراس کی درستگی کے ساتھ ہی وہ اپنی داخلی سیاست کو مستحکم کرسکیں گے۔
ویسے ہماری سیاسی او ر سماجی روایت بھی یہ ہی ہے کہ جب دو بڑوں میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے تو عمومی طور پر بڑے بھائی کا کردار نمایاں ہوتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ چھوٹے بھائی کے تحفظات کو دور کرے اس کو ساتھ چلاسکے اوراسی بنیاد پر بڑوں کے معاملات بھی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر چل سکتے ہیں۔
لیکن ابھی ایک بڑا ٹکراؤ مریم نواز کی صورت میں سامنے آئے گا۔ کیونکہ مریم نواز ہر صورت میں اپنے والد کی تیمارداری کی بنیاد پر عدالتی ریلیف چاہتی ہیں اوران کی کوشش ہوگی کہ وہ کسی طرح عدالتی ریلیف حاصل کرسکیں۔ لیکن اس معاملے پر حکومتی سطح پر اور خاص طور پر وزیر اعظم عمران خان کا ردعمل سخت ہوگا اور آسانی سے ان کے باہر جانے کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور یہ عمل طاقت کے مراکز میں ایک نئے ٹکراؤ کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔