حزب اختلاف کی جماعتوں سمیت بہت سے اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے موجودہ سیاسی بحران کا حل نئے انتخابات کا راستہ ہے۔ اس فکر کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک میں 2018کے انتخابات شفاف نہیں تھے۔ اس طبقہ کے بقول موجودہ حکومت عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ مینڈیٹ اسے اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کی وجہ سے ملا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ ہماری سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو سیاسی قوتوں سمیت اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ ہمیشہ سے سیاسی بحران کی وجوہات یا محرکات کو سمجھنے کے بجائے قبل از وقت انتخابات ہی کو مسئلہ کا حل سمجھتا ہے۔
ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المیہ یہ بھی کہ اس ملک میں ہر انتخابات کی حیثیت شفافیت پر مبنی نہیں سمجھی جاتی۔ کیونکہ جیتنے والے انتخابی نتائج کو شفافیت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس ہارنے والی سیاسی جماعتیں اپنی شکست کو قبو ل کرنے کے بجائے الزامات کی بوچھاڑ کر دیتی ہیں۔
ہارنے والی سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کی قبولیت کے بجائے " انتخابی دھاندلی " کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔ یہی جماعتیں جب اقتدار کا حصہ بنتی ہیں تو یہ انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے نئی اصلاحات سمیت الیکشن کمیشن کو خود مختار اور بااختیار بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ سیاسی حکومتیں عمومی طور پر الیکشن کمیشن سمیت دیگر انتخابی اداروں کو کمزور کرکے اپنے سیاسی ایجنڈے یا نتائج کو تقویت دیتی ہیں۔
عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی یا عوامی تحریک نے جب 2014 میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ایک بڑا سیاسی دھرنا اسلام آباد میں دیا تھا تو اس کے نتیجے میں دو پہلو سامنے آئے تھے۔ اول انتخابی دھاندلیوں کا جائزہ لینے کے لیے جو عدالتی کمیشن بنا اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر بیالیس ایسے نکات سامنے آئے تھے جو انتخابی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔
سپریم کورٹ کے بقول حکومت اورالیکشن کمیشن ان بیالیس بے ضابطگیوں کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ اگلے انتخابات میں ان بے ضابطگیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ دوئم اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت نے دھرنے کی وجہ سے انتخابی اصلاحات کے لیے ایک بڑی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جس میں دیگرجماعتوں سمیت پی ٹی آئی کی جماعت بھی شامل تھی۔ لیکن 2018کے انتخابات میں نہ تو ان بے ضابطگیوں پر کوئی قابو پایا جاسکا او رنہ ہی پارلیمانی کمیٹی کی منظوری سے بننے والی انتخابی اصلاحات کا کوئی نتیجہ نکل سکا۔
اس لیے حزب اختلاف کا یہ نیا نعرہ کہ ملک میں عمران خان کی حکومت کو ختم کرکے فوری طور پر نئے انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے بھی ایک جذباتی یا سیاسی نعرہ ہی ہے۔ اس بات کی کون ضمانت دے گا کہ یہ سب جماعتیں اور حکمران جماعت ملک میں نئے انتخابات کے نتائج کو قبول کرلیں گی۔ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ موجودہ الیکشن کمیشن یا اس سے جڑے ادارے ملک میں شفاف انتخابات کو یقینی بنائیں گے۔ اس لیے یہ امکان بدستور موجود رہے گا کہ جب بھی نئے انتخابات ہونگے توہارنے والی جماعت انتخابی دھاندلی کا نعرہ بلند کرکے پورے مینڈیٹ کو ہی چیلنج کردے گی۔
ہمارے یہاں نہ تو جمہوری کلچر مضبوط ہوسکا اورنہ آئینی، انتظامی اورقانونی بنیادوں پر ہم شفاف نظام کو یقینی بناسکے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے پوچھا جائے کہ جو انتخابات انھوں نے جیتے ہیں کیا وہ شفاف تھے تو ان کے بقول ایسا ہی تھا۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ شفاف انتخابات سے مراد محض ہمارا انتخابات جیتنا ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی مداخلت کے علاوہ خود سیاسی جماعتیں جہاں تک ہوسکتا ہے انتخابی نظام میں دھاندلی نہ صرف کرتی ہیں بلکہ اپنے کارکنوں کی حمایت کرتی ہیں جو ان کے لیے ناجائز طور طریقے اختیار کرتے ہیں۔
جو لوگ بھی اس وقت نئے انتخابات کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں وہ سیاسی بحران کو حل کرنا کم اور عمران خان کی حکومت سے زیادہ جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نئے انتخابات کی صورت میں ہی عمران خان سے جان چھٹ سکتی ہے۔ ان جماعتوں کے پاس کوئی ایسا منصوبہ یا متبادل نظام موجود نہیں کہ کیسے ملک میں شفاف انتخابات ہوسکتے ہیں۔ بقول نواز شریف کے اس ملک میں انتخابات سے قبل ہی سیاسی نتائج تیار کرلیے جاتے ہیں۔ حزب اختلاف کی یہ معصوم سی خواہش ہوگی کہ جب بھی نئے انتخابات ہونگے تو ان کی نظر میں ہمیں اسٹیبلیشمنٹ کا کوئی کردار نظر نہیں آئے گا۔
اگر واقعی حزب اختلاف سیاسی بحران کو ختم کرنا اور ادارہ جاتی نظام کو آئینی اور سیاسی دائرہ کار میں چلانا چاہتی ہے تو اس کے لیے اس کا مطالبہ نئے انتخابات نہیں بلکہ ایک جامع اصلاحاتی پروگرام ہونا چاہیے۔ حزب اختلاف اس نظام کو شفاف بنانے کے لیے جو ایجنڈا رکھتی ہے وہ قوم کے سامنے پیش کرے اور اسے ایک بڑے سیاسی مکالمہ کے ساتھ جوڑے۔ اس وقت ہمیں چھ بنیادی نوعیت کے مسائل درپیش ہیں۔ اول شفاف انتخابات کیسے ہوں گے۔
دوئم حکمرانی کا سنگین نوعیت کا بحران، سوئم معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی خوفناک سطح کی مہنگائی، چہارم کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست اور احتساب کا فقدان، پنجم ادارو ں کی اصلاحات جس میں بیوروکریسی، ایف بی آر، پولیس اور انتظامی سطح سے جڑے ادارے، ششم اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کو محدود کرنا اور سول بالادستی کا قیام شامل ہیں۔ اسی طرح سے خارجی سطح پر علاقائی ممالک سے تعلقات جن میں بھارت، افغانستان، ایران، چین، ترکی، سعودی عرب اور امریکا سے معاملات میں کامیاب حکمت عملیاں درکار ہیں۔
یہاں حکومت اور حزب اختلاف میں بداعتمادی کا ماحول ہے اورکوئی ایک دوسرے کے وجود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں مکالمہ، اصلاحات اور ملک کی اصلاح کا ایجنڈا بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ اس لیے نئے انتخابات کے مطالبہ سے زیادہ ہماری ضرورت ملک کے سیاسی اورانتظامی نظام میں اصلاحات کا عمل ہے اور جو روایتی انداز سے نہیں بلکہ کڑوی گولی سے ہوگا اور اس کے لیے ہمیں غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہونگے اور سیاسی تماشوں پر مبنی سیاست کو خیر آباد کہنا ہوگا۔