مسلم لیگ ن کے بارے میں ان کے بہت سے سیاسی پنڈت یہ رائے دیتے تھے کہ مریم نواز ہی میں وہ سیاسی حرارت موجود ہے جو عملی طور پر نواز شریف کے بعد پارٹی کی سیاست میں نئی جان اور طاقت ڈال سکتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کے سیاسی پنڈت مریم نواز کو ہی نواز شریف کا سیاسی جانشین کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔
ابتدا میں واقعی مریم نواز نے نواز شریف کی وزارت عظمی سے برطرفی کے بعد ان کے سیاسی مخالفین کو ایک بڑی طاقت سے للکارا تھا۔ ووٹ کو عزت دو، پارلیمان کی بالادستی، جمہوریت کی جنگ، مزاحمت کا نعرہ بلند کرکے انھوں نے عوامی توجہ بھی حاصل کی۔ اہل دانش میں وہ لوگ جن کا کوئی براہ راست مسلم لیگ ن کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بھی مریم نواز کی سیاست کو ایک حقیقی جمہوری جنگ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کا اصل ووٹ نواز شریف ہی کو حاصل ہے۔ شہباز شریف اس میں کوئی بڑا ملکہ نہیں رکھتے اور خود نواز شریف بھی مریم نواز کو سیاسی مستقبل میں ایک بڑے سیاسی کردار کے طور پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔
خاندان کی سیاست میں شہباز شریف مسلم لیگ ن میں خود کو نواز شریف کے سیاسی جانشین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وزارت عظمی پر پہنچنے کی خواہش بھی ان میں موجود ہے اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس لیے شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان جو سیاسی رسہ کشی موجود ہے اس کا عملی نقصان پارٹی کے اندر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نواز شریف اگر فیصلہ مریم کے حق میں کرتے ہیں تو شہباز شریف ناراض اور اگر فیصلہ شہباز شریف کے حق میں ہوتا ہے تو یقینی طورپر پھر مریم نواز کی سیاست پیچھے چلی جائے گی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے بجائے معاملات کو مصلحت کے تحت چلارہے ہیں۔ اس کا ایک نقصان مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی کے کارکنوں میں ہورہا ہے اور وہ عملی طور پر شہباز گروپ یا مریم نواز گروپ میں تقسیم نظر آتے ہیں یا ابہامی سیاست کا شکار ہیں۔ جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ شہباز شریف پاکستان کیوں تشریف لائے تو اس کی بڑی وجہ پارٹی معاملات کو کنٹرول کرنا تھا۔ کیونکہ شہباز شریف کو خدشہ تھا کہ اگر وہ باہر بیٹھ کر سیاست کریں گے تو مریم نواز ان کی سیاست میں مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔
مریم نواز کی سیاسی خاموشی نے بھی ان کے سیاسی حمایتیوں کو مایوس کیا ہے۔ جمہوریت کی جنگ، ووٹ کو عزت دو اور بیانیہ کی جنگ کے دو بڑے کردار نواز شریف اور مریم نواز جن کی قیادت میں یہ جنگ لڑی جانی تھی، عملی طور پر پس پشت چلی گئی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی بیانیہ کے مقابلے میں شہباز شریف کا بیانیہ پارٹی کے بڑے الیکٹیبلز پر حاوی ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ یا جنگ کرکے ہم عملی سیاست میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ خود شہباز شریف بھی کہہ چکے ہیں کہ ٹکراؤ کی سیاست ہمارا ایجنڈا نہیں۔ ان کے بقول اگر نواز شریف اورمریم نوازکا سیاسی بیانیہ نہ ہوتا تو ہم آج اقتدار کی سیاست کاحصہ ہوتے۔
مریم نواز اور نواز شریف نے مفاہمت یا اسٹیبلیشمنٹ سے باہمی انتظامات کی سیاست کے تحت زبان بندی کی ہوئی ہے اور یہ ہی وجہ ان کی خاموشی کی ہوسکتی ہے۔ مریم نواز کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ عملی سیاست میں سرگرم ہوکر خود کو ایک بڑی متبادل سیاسی قیادت کے طور پر پیش کرتیں اور نواز شریف کے بیانیہ کو بنیاد بنا کر پاپولر سیاست کرتیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شریف خاندان اسٹیبلیشمنٹ سے نئی مفاہمت کے ساتھ ہی آگے بڑھنا چاہتا ہے اور شہباز شریف اس کھیل میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں کہ مفاہمت کا راستہ نکالا جائے۔ مسلم لیگ ن کا مجموعی مزاج مزاحمتی سیاست کا نہیں ہے اور اس کی مجموعی سیاست پس پردہ قوتوں سے مفاہمت کے ساتھ ہی چلی ہے۔ ایک بات مریم نواز کو بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ اگر واقعی معاملات اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت کی صورت میں ہی طے ہونے ہیں تو اس میں ان کے مقابلے میں شہباز شریف کو ہی برتری حاصل ہوگی۔ کیونکہ وہ ہی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ فرنٹ فٹ پر کھیل رہے ہیں اور خود کو ہی متبادل کے طور پر ہی پیش کررہے ہیں۔
مریم نواز کی عملی خاموشی نے ثابت کیا ہے کہ فی الحال وہ کسی بڑی جنگ کے موڈ میں نہیں ہیں اور جو بھی جنگ لڑنی ہے اس کے لیے مناسب وقت کا انتظار کیا جائے۔ حالانکہ مریم نواز اور نواز شریف کو ایک سیاسی برتری یہ حاصل تھی کہ ان کوتمام اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حاصل تھی اور وہ متحدہ حزب اختلاف کی قیادت بھی کرسکتی تھیں۔ اس لیے اگر مریم نواز کی سیاست کے مستقبل کے بارے میں جو بھی سوالیہ نشان موجود ہے وہ سب ان ہی کی ذات سے جڑے ہوئے سوال ہیں۔ اس کا فیصلہ بھی انھوں نے خود ہی کرنا ہے کہ وہ مفاہمت اور جنگ میں کونسا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ مریم نواز کی حالیہ سیاسی خاموشی عملی طور پر شہباز شریف کوفائدہ دے رہی ہے اوروہ فرنٹ فٹ پر جب کہ مریم نواز بیک فٹ پر نظر آتی ہیں۔
اس لیے موجودہ صورتحال میں ہمیں مریم نواز کا سیاسی مستقبل کوئی بڑانظر نہیں آرہا اور یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں ہوگا جب تک وہ خودکوعملی سیاست میں شامل نہیں کریں گی۔ ہمیں فوری طورپر ان کی سیاسی میدان میں واپسی کا امکان بھی بہت محدودنظر آتا ہے اور بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ یہ لوگ عملی سیاست کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں ہیں اور یہ مناسب وقت اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کی سیاست کی صورت میں ہی ہوسکتا ہے۔