یہ واقعی پاکستان کی سیاسی جمہوری تاریخ کا اہم دن ہے جب فاٹا کے قبائلی لوگوں نے ملکی تاریخ میں پہلی بار براہ راست انتخابی عمل میں حصہ لیا، ووٹ ڈالا اوراپنی مرضی کے مطابق اپنے امیدواروں کا خود فیصلہ کیا۔ یہ عمل حقیقی معنوں میں اہم اور ان مقامی قبائلی لوگوں کو قومی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے ایک بڑی پیشرفت ہے۔
یہ احساس وہاں کے مقامی اور قبائلی لوگوں کو ہی ہوسکتا ہے جن کو ووٹ کا حق ملا ہے کہ یہ کتنا بڑا فیصلہ ہے۔ جنگ زدہ، شورش زدہ اور مسلسل فوجی آپریشنوں کا شکار یہ علاقہ اگر پرامن، سیاسی اورجمہوری عمل سے گزرا ہے تو یہ واقعی ایک تاریخی کامیابی ہے۔ 20جولائی کا دن قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کی 16 نشستوں پر براہ راست انتخاب مقامی لوگوں کے لیے بڑی خوشی سے کم نہ تھا۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ان انتخابات میں لوگوں کو بطور ووٹر دلچسپی بھی نظر آئی اور جوش خروش بھی۔ سیاسی جماعتوں سمیت آزاد امیدوار بھی بڑی تعداد میں اس عمل کا حصہ بنے۔ وہ علاقے جہاں بندوق کے زور پر نظام چلایا جاتا رہا ہو اب وہاں بلٹ کے بجائے بیلٹ کی طاقت سے نظام کو چلانا ایک نئے جمہوری دور کانکتے آغاز ہوسکتا ہے۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں کمزور اورمحروم طبقات کے لیے سیاسی، سماجی سمیت معاشی مواقعے پیدا کرتی ہے اور لوگوں میں یہ احساس دیتی ہے کہ سیاسی جمہوری نظام ہی ان کی ترقی کی کنجی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوری نظام کو دیگر نظاموں کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہے۔ اگرچہ جمہوری نظاموں میں بیشترمسائل ہیں اورلوگ ان پر آوازیں بھی اٹھاتے ہیں مگر اسی نظام کے اندر رہ کر ہی لوگ مسائل کا حل بھی تلاش کرتے ہیں۔
فاٹا کے قبائلی علاقہ جات کو قومی سیاسی دھارے میں لانے کے لیے کئی دہائیوں سے آوازیں اٹھ رہی تھیں اور سب اس نکتے پر زور دیتے تھے کہ ان علاقوں کو قومی سیاسی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔ بنیادی نکتے یہ تھا کہ اس تاثر کی نفی کی جائے کہ قبائل کے مقامی لوگوں کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں اوران کے فیصلے مقامی انتظامیہ اورجرگہ کے ماتحت ہوںگے اور ان کو چیلنج کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ فاٹا سے خیبرپختونخوا کا سفر فاٹا کے مقامی قبائلی لوگوں کا ایک بڑا سفر ہے اوراس سفر میں ان کو بے پناہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بہت سے لوگوں کو یہ خوف تھا کہ کیا پرامن انتخاب ممکن ہوسکیں گے۔ بالخصوص وہ علاقے جو دہشتگردی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ لیکن یہاں انتظامیہ سمیت فوج کا مثالی کردار تھا اورفوج نے مقامی لوگوں کے تعاون سے جو پرامن انتخابی عمل کو یقینی بنایا وہ بڑا سیاسی معرکہ ہے۔ فاٹا سے کی 16صوبائی نشستوں پر تین سو سے زیادہ امیدواروں نے حصہ لیا جس میں تقریبا 90 کے قریب سیاسی جماعتوں کے امیدوار تھے، جب کہ باقی آزاد امیدوار تھے۔
ان انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی مولانا فضل الرحمن گروپ نے حصہ لیا۔ فاٹا کی16صوبائی نشستوں پر براہ راست انتخابات ہوئے جب کہ پانچ مخصوص نشستیں بھی ہیں جن میں چار خواتین کی اورایک اقلیت کی ہے۔ عورتوں نے بھی بڑی پرجوش ہوکر انتخابی عمل میں حصہ لیا اوراپنا ووٹ ڈالا جو بڑی سیاسی کامیابی ہے کیونکہ یہ تاثر کہ وہاں کے مقامی قبائل مقامی عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس کی نفی کی گئی ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس انتخابی معرکہ میں کون سی جماعت جیتی اور کون ہارا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ علاقہ اب قومی دھارے کا حصہ بنا ہے اور ایک قبائلی نظام سے سیاسی اورجمہوری نظام کی طرف پیشرفت ممکن ہوسکی ہے۔ یہ سیاسی اورجمہوری عمل اگر تسلسل سے چلتا رہا تو یہاں سیاسی نظام موثر اورمضبوط بن سکتا ہے۔ اس سیاسی اور جمہوری نظام کی کامیابی کی کنجی عملا اب نئی نوجوان نسل کے کندھوں پر ہے کہ وہ اس نظام کو اپنی شمولیت سے کیسے موثر اور شفاف بنا کر مقامی ترقی کی حقیقی بحث کو آگے بڑھاتے ہیں۔
ان انتخابات میں زیادہ نشستیں آزاد اورحکمران جماعت تحریک انصاف نے جیتی ہیں، جب کہ جے یو آئی، جماعت اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صوبائی انتخابات کے بعد اگلا سیاسی معرکہ مقامی حکومتوں کے انتخاب کا ہوگا۔ یہ وہ مرحلہ ہوگا جہاں نوجوان نسل کو زیادہ سیاسی نمایندگی کا موقع مل سکتا ہے اور وہ مقامی نظام میں اپنی موثر شمولیت کی مدد سے اپنی مرضی کے نظام کو آگے بڑھاسکتے ہیں۔
اگر ان مقامی انتخابات کو عملا جماعتی بنیادوں پر کروایا گیا تو اس سے مقامی سطح پر سیاسی جماعتیں اور سیاسی نظام بھی مضبوط ہوگا اور سیاسی جماعتوں کا دائرہ کار ان علاقوں میں موثر کردار ادا کرے گا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ابھی سے مقامی حکومتوں کے انتخابات پر زور دیں اور اس عمل میں حصہ لے کر اس علاقہ کی محرومی کی سیاست کے خاتمہ میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔
کیونکہ وہاں کے مقامی لوگوں کا اب نئے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ ان کے بقول جو کام محرومی کی سیاست کے خاتمہ میں ماضی کے نظام میں نہیں ہوسکا اور یہ کام اب اس نئے نظام میں ممکن ہوگا۔ اب اس نئے سیاسی نظام کے تحت قبائل کے لوگوں کی توجہ کا مرکز جہاں اسلام آباد ہو گا وہیں ان کا دارالحکومت پشاور بھی مرکزی حیثیت حاصل کرے گا۔ اس نظام کی کامیابی کی ایک کنجی ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
کیونکہ اگر ان قبائلی علاقہ جات میں سیاسی اورجمہوری سرگرمیو ں کو فوقیت دی جائے گی تو اس کا براہ راست اثر دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے میں ایک بڑی کامیابی کی صورت میں سانے آئے گا۔ کیونکہ سیاسی، سماجی اورمعاشی محرومی سوائے انتہا پسندی کے کچھ نہیں پیدا کرتی اوراس کا عملی نتیجہ دہشتگردی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اصل اور بڑا چیلنج ان علاقوں کی سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی ترقی کا عمل ہے۔
یہ کام محض صوبائی انتخابات کے انعقاد سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ یہ انتخاب مقامی ترقی کے لیے ایک سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی باقی سیڑھیاں بھی ہیں اوران پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت وہاں کے اب جو لوگ منتخب ہوئے ہیں ان کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ سیاست اور جمہوریت کی کامیابی کا عمل اصلاحات سے جڑا ہوتا ہے اور اب ان علاقوں کے لیے بنیادی سہولیات اور ترقی کے تناظر میں ایک بڑی اصلاحات اور وسائل درکار ہیں اوراس پر اب حکمران طبقہ کی بڑی توجہ ہونی چاہیے۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نے بطور ریاست دہشتگردی سے نمٹنے کی جو کوششیں کی ہیں اس کے بہتر نتائج ملے ہیں اور اب ان نتائج کو بنیاد بنا کر مقامی لوگوں کو قومی ترقی کے دھارے میں لانا ہوگا۔ کیونکہ سیاسی، معاشی اورسماجی انصاف ہی کسی بھی سیاسی نظام کی کامیابی کی دلیل ہوتا ہے۔
حکمران طبقات سمیت ریاستی اداروں کو سمجھنا ہوگا کہ ان علاقوں میں روائتی طریقوں سے تبدیلی لانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی اور اس کے لیے ہمیں ان علاقوں کے لیے انتخابات سمیت نئے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ یہ ایک اچھا موقع ہے ان علاقوں کو قومی ترقی کے دھارے میں لایا جائے اوراسے کسی بھی صورت میں ضایع نہیں کیا جانا چاہیے۔