جو لوگ یہ منطق دے رہے تھے کہ شہباز شریف کی واپسی ایک خاص مقصد، ڈیل یا حکمت عملی کا نتیجہ ہے، لیکن شہباز شریف کی واپسی کے بعد کے امکانات کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ ان کی آمد کے بارے میں جو بھی سیاسی پیش گوئیاں کی گئیں تھیں، وہ نتیجہ خیز نہ ہوسکیں یا اس میں حقایق سے زیادہ کسی کی خواہش کا عنصر زیادہ تھا۔ عملی حقایق یہ ہیں کہ اس وقت عمران خان کی حکومت کو شہباز شریف سمیت حزب اختلاف کی کسی بھی جماعت سے کوئی بڑ ا خطرہ نہیں۔ عمران خان کی حکومت کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود ان کی اپنی حکومت ہے۔
شہباز شریف ایک عملی سیاست دان ہیں۔ عملی سیاست کسی بڑے خلفشار میں الجھنے کے بجائے عملی مسائل پر توجہ دینے کا نام ہے۔ شہباز شریف کا سیاسی ماڈل فیصلہ ساز طاقت کے مراکز کے ساتھ معاملات کو جوڑ کر اقتدار کے کھیل میں حصہ دار سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اس معاملہ پر ہمیشہ سے اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں ہمیں طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکراو کی سیاست پیدا کرنے کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اسٹیبلیشمنٹ کے حلقوں میں کافی حد تک قابل فرد کہ طور پر اپنی قبولیت بھی رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی مسلم لیگ ن اور بالخصوص شریف خاندان کو جو کچھ بھی سیاسی رعائتیں ملی ہوئی ہیں اس کے پیچھے بھی شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کا عمل دخل ہے۔
شہباز شریف کی پوری کوشش ہے کہ وہ خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کریں اور پس پردہ قوتوں کو یقین دلاسکیں کہ وہ مسائل پیدا نہیں کریں گے جو نواز شریف یا مریم نواز نے کیے ہیں۔ اسی سو چ اور فکر کے ساتھ وہ اپنی ہی جماعت میں اپنا سیاسی قد کاٹھ بڑا بنا کر پیش کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ شہباز شریف نے خاموشی سے مسلم لیگ ن کے ان لوگوں کو جو انتخابی سیاست کرتے ہیں اور اس وقت بھی اسمبلیوں کا حصہ ہیں کو صاف پیغام دیا ہے کہ ہم حکومت میں دوبارہ آسکتے ہیں، لیکن اس کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔
اس وقت شہباز شریف پاکستان میں ہیں۔ ان پر ان کے بیٹوں، داماد اور خاندان کے دیگر افراد پر مالی بدعنوانیوں، کرپشن، بے ضابطگیوں سمیت منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ نیب اور شریف خاندان کے درمیان آنکھ مچولی کا کھیل جاری ہے۔ شہباز شریف نیب سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں، حمزہ شہباز نیب کی تحویل میں ہیں۔ سلمان شہباز اور داماد علی عمران ملک سے باہر ہیں۔
شہباز شریف بطور اپنے گھر کے سربراہ کے ان تمام معاملات سے سخت پریشان بھی ہیں۔ ایسے میں اس وقت شہباز شریف کے لیے سیاست سے زیادہ قانونی مقدمات ہیں اس سے ان کو خود بھی بچنا ہے اور اپنے بیٹوں سمیت خاندان کے دیگر افراد کو بھی بچانا بنیادی ترجیح کا حصہ ہے۔ سیاسی طورپر ان کی پہلی ترجیح خود کو نواز شریف کے متبادل کے طور پر پیش کرنا ہے اور فرنٹ فٹ پر رکھ کر کھیلنا ہے۔ شہباز شریف جانتے ہیں کہ مریم خود کو نواز شریف کا متبادل سمجھتی ہیں اور وہ قیادت کے لیے خاقان عباسی کو آگے کرنا چاہتی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان سیاسی فاصلے نظر آتے ہیں۔
شہباز شریف کی کوشش یہ ہے کہ وہ باہمی اتفاق سے نواز شریف کو یہ باور کرواسکیں کہ وہ متبادل قیادت کے طو رپر ان کے نام پر اتفاق کرلیں اور اس سے پارٹی اور خاندان دونوں کی سیاست کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ شہباز شریف کبھی بھی نواز شریف کو چیلنج کرکے باہر نہیں نکلیں گے اور وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہی ہے اور اس پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے انھیں نواز شریف کی ہی سیاسی حمایت درکار ہوگی۔
اس لیے شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک خاندانی سیاست کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ عملی طو رپر اس پوزیشن میں بھی نہیں کہ وہ پارٹی میں نواز شریف کے خلاف کوئی بڑی مزاحمت پیدا کرسکیں۔ اسٹیبلیشمنٹ بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ شہباز شریف اگر نواز شریف کو چیلنج نہیں کرتے تو وہ ایک سیاسی بوجھ ہی ہوسکتے ہیں اور مریم ہی نواز شریف کا متبادل ہوں گی۔ جب کہ شہباز شریف یہ کا م آسانی سے نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز دونوں کا کردار ختم ہوسکتا ہے، اس لیے مسلم لیگ ن یا شریف خاندان کی سیاست کا حالیہ بحران جہاں اسٹیبلیشمنٹ سے مفاہمت یا ٹکراو کی سیاست سے جڑا ہوا ہے وہیں بڑا سوال خاندان کے اندر مستقل کی سیاست کے لیے کرداروں کا انتخاب بھی ہے۔
شہباز شریف کے حق میں یہ بات ضرور جاتی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی نے ان کو سیاسی طور پر زندہ رکھاہوا ہے۔ لیکن وہ کب تک ان دونوں کرداروں کو خاموش رکھ سکیں گے اس کا جواب ہی شہباز شریف کے مستقبل کا تعین کرسکے گا۔ فی الحال تو ان کی واپسی ہوگئی ہے۔
شہباز شریف کی پہلی کوشش یہ ہوگی کہ وہ خود کو سب سے پہلے قانونی معاملات سے محفوظ بناسکیں کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ اس وقت ان کے خاندان کو قانونی ریلیف کا ملنا اہم نکتہ ہے اوراسی بنیاد پر ہم مستقبل کی سیاست میں اپنا رنگ بھر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس بات کا اندازہ ہے کہ شہباز شریف کو قانونی محاذ پر ہی کنٹرول کرکے ان کی سیاسی گرفت کو کمزور کیا جاسکتا ہے او ریہ ہی وجہ ہے کہ حکومت کا مقدمہ بھی شہباز شریف اوران کے بچو ں کے خلاف قانونی زیادہ ہے او راسی کو بنیاد بنا کر ان کو سیاسی طور پر کمزور کرنا حکومتی پالیسی کا حصہ ہے۔