Saturday, 16 November 2024
    1.  Home/
    2. Express/
    3. Shahbaz Sharif Kahan Khare Hain

    Shahbaz Sharif Kahan Khare Hain

    سیاست کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مستقبل کے بجائے ماضی میں رہ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے مستقبل کی تصویر کم اورماضی کا ماتم زیادہ ہوتا ہے۔ شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مقدمات کے گرداب کا شکار ہیں۔

    ان کی جماعت کے لوگ جتنا مرضی اس با ت پر زور دیں کے جماعت میں شامل لوگ اور قیادت یکسوئی کے ساتھ ایک متفقہ ایجنڈے پر کھڑی ہے، درست تجزیہ نہیں۔ مسلم لیگ ن عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ کی قیادت نواز شریف اورمریم نواز کے پاس ہے، جب کہ دوسرے حصہ کی قیادت شہباز شریف اور خواجہ آصف سمیت کچھ او رمسلم لیگی راہنما کے ہاتھ میں ہے۔

    دونوں کے بیانیہ کی حقیقی کہانی جمہوریت یا قانون سمیت پارلیمنٹ کی بالادستی نہیں بلکہ اقتدار کے کھیل کے گرد گھومتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر اس نکتہ نظر کو تسلیم کرلیا جائے تو کیا وجہ ہے کہ پارٹی کے سربراہ نواز شریف نے کبھی اپنے بھائی کی پس پردہ قوتوں کے ساتھ میل ملاپ پر کبھی کوئی کاروائی نہیں کی۔ شہباز شریف اپنے تعلقات کا اعتراف بھی کرتے ہیں او رکہتے ہیں کہ نواز شریف یا مریم نواز کا ٹکراو کا بیانیہ غلط تھا او روہ اس کی کسی بھی صورت میں حمایت نہیں کرتے۔

    نواز شریف اور مریم نواز کے بقول انھوں نے 2018کے انتخابات پارلیمنٹ، جمہوریت کی بالادستی کے نعرے پر لڑا تھا۔ جب کہ شہباز شریف ایک بڑے معروف کالم نگار کے ساتھ گفتگو میں یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان کے 2018کے انتخابات، نتائج اور مسلم لیگ ن کی حکومت بننے او رخود ان کے وزیر اعظم بننے پر مقتدر حلقوں سے تمام معاملات طے ہوگئے تھے، لیکن ان کے بقول نواز شریف اورمریم نواز کے بیانیہ نے یہ کھیل پلٹ دیا۔

    دراصل یہ بات سمجھنی ہوگی کہ بیانیہ کی جنگ ہو یا جمہوریت، قانون کی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی یا اسٹیبلیشمنٹ یہ محض ایک بڑے سیاسی ہتھیار ہیں۔ نواز شریف اپنے چہرہ کو جمہوری بنا کر پیش کرتے ہیں جب کہ دوسرا بھائی اسٹیبلیشمنٹ کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف نے 2018کے انتخابات کے حوالے سے جو گفتگو معروف کالم نگار سے کی کیا وہ بات سادگی میں کہہ گئے یا ایک سوچی سمجھی سوچ کا حصہ ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شہباز شریف کا حالیہ اعتراف ایک منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ کیونکہ ابھی تک انھوں نے اس بیان کی تردید نہیں کی۔ دراصل وہ اس بیان سے اپنی جماعت کے قومی، صوبائی، سینیٹ سمیت سرکردہ راہنماوں کو یہ صاف پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ ہی واحد فرد ہیں جو اقتدار کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

    یہ با ت سمجھنے کی ہے کہ شہباز شریف کی اس بات کا مقصد کے پیچھے تین اورعوامل ہیں۔ اول وہ اس نکتہ نظر کے اسٹیبلیشمنٹ آج بھی ان ہی کے ساتھ ہے اپنے ارکان اسمبلی کو پیغا م دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن میں ہی رہیں او رمستقبل ہمارا ہے۔ کیونکہ شہباز شریف کو اندازہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سطح پر ایک گروپ موجود ہے جو پی ٹی آئی کے ساتھ رابطوں میں ہے۔

    اس لیے شہباز شریف کا بیان پارٹی کو یکجا رکھنا، خاص طورپر پارٹی کے ارکان اسمبلی کو اس بات پر قائل کرنا کہ وہ ان ہی کہ بیانیہ کے ساتھ کھڑے رہیں۔ دوئم شہباز شریف کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ مریم نواز کچھ سینئر قیادت کے ساتھ مل کر اپنے گروپ کو پارٹی میں منظم کررہی ہیں جو ان کی قیادت کو بھی کمزور کرے گا اور پارٹی کے اندر پہلے سے موجود گروپ بندی کو اور زیادہ تقویت دے گا۔

    سوئم وہ اب بھی اسٹیبلیشمنٹ کو صاف پیغام دے رہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اورو ہ مستقبل کی پیش قدمی میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ ووٹرز نواز شریف کی طرف دیکھتا ہے او روہ سمجھتا ہے کہ مریم نواز اس کا اہم متبادل ہے۔ جب کہ شہباز شریف کا خیال ہے کہ ووٹرز کے مقابلے میں اصل طاقت ارکان اسمبلی کی ہوتی ہے جو انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ شہباز شریف یا حمزہ شہباز میں وہ دم خم نہیں جو مریم کے پاس ہے اور وہی مسلم لیگ ن او رنواز شریف کے نام پر ایک بڑی انتخابی مہم سجاسکتی ہیں۔ جہاں تک شہباز شریف کی دوبارہ وطن واپسی کا سوال ہے تو لگتا ہے کہ وہ پارٹی کے داخلی مسائل اور قومی وصوبائی اسمبلی میں فاورڈ بلاک کی خبروں کی وجہ سے واپس آئے۔

    شہباز شریف کو لگتا ہے کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہوگئی ہے اور عمران خان کا مستقبل تاریک ہے۔ مسلم لیگ ن کے حامی سیاست دان، اہل دانش یہ ہی سمجھتے ہیں کہ ٹکراو کی یہ کیفیت پیدا کرکے وہ حکومت کو ایک بڑے دبائو میں لاسکتے ہیں۔ حالانکہ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلیشمنٹ میں کوئی ٹکراو ہے یا اس صورتحال کا کوئی بڑا فائد ہ اٹھایا جاسکتا ہے، درست تجزیہ نہیں۔ عمران خان کی حکومت اپنے تمام تر داخلی مسائل کے باوجود بڑی حد تک خطرات سے باہر آگئی ہے۔

    خیال یہ ہے کہ عمران خان اب ایک پاپولر سیاست کی مدد سے اپنی سیاسی مقبولیت کے بھرم کو قائم رکھنے کا تفصیلی منصوبہ بھی بناچکے ہیں۔ اسی طرح عمران خان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے مقابلے میں جو حزب اختلاف ہے وہ اس حد تک کمزور ہوگئی ہے کہ یہ ہی اصل میں ان کی سیاسی طاقت بھی ہے۔ حزب اختلاف نہ تو ایک ہے او رنہ ہی ان کے پاس کوئی ایسا ٹھوس پلان ہے جو ان کے بقول جو بحران موجود ہے وہ اسے حل کرسکیں گے۔ اس لیے شہباز شریف کی عمران خان کی حکومت میں سیاسی مہم جوئی ناکام ہوگی۔ ان کے پاس اگر کچھ کرنے کو ہے تو وہ اول اپنی قیادت اوربیانیہ کے حوالے سے نواز شریف اورمریم کی مکمل حمایت حاصل کریں اوروہ کھل کر کہیں کہ ہم شہباز شریف او راس کے بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہیں، جو ممکن نہیں۔