وہی قومیں خود کو دنیا میں مہذب قوم کے طور پر پیش کرتی ہیں جن کا تعلیمی بیانیہ ایک فکری و علمی بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ وہی ریاست اور معاشرہ آگے بڑھتا ہے جن کی ترجیحات میں تعلیم کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
جہاں تعلیم میں مالی سرمایہ کاری کی اہمیت ہوتی ہے وہیں سوچ، فکر، تدبر، فہم وفراست، عقلی و شعوری کوششوں اور جدیدیت کی بنیاد پر اپنی تعلیمی ترجیحات، پالیسی یا قانون سازی سمیت عملدرآمد کے نظام کو تقویت دینا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری پرائمری تعلیم سے ہائر ایجوکیشن کی تعلیم پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھتے ہیں۔ کیونکہ ہم تعلیم کی بنیاد پر وہ معاشرہ یا کھیپ پیدا نہیں کررہے جو ہماری قومی ضرورت بنتے ہیں۔ جب اعلی تعلیم کی بات کی جاتی ہے تو ا س میں ایک بڑا نکتہ فکری بیانیہ کی تشکیل کا ہوتا ہے، یعنی ریاستی و حکومتی یا ادارہ جاتی سطح پر جو بھی مسائل درپیش ہیں ان کا فکری حل بھی عملا تعلیمی اداروں سے تحقیق اور شواہد کی بنیاد پر سامنے آتا ہے۔
لیکن ہم محض تحقیق اور دنیا میں ہونے والی تعلیمی و فکری تبدیلیوں سے سیکھنے یا اسے جانچنے کی بجائے روائتی طور طریقوں سے بچوں او ربچیوں کو پڑھا رہے ہیں یا ہم نے تعلیمی اداروں کو ایک متبادل بیانیہ کی تشکیل کی بجائے ان کو ڈگریاں جاری کرنے کی مشین بنادیا ہے۔
جی سی یونیورسٹی پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں ایک منفرد پہچان رکھتی ہے۔ اس ادارے سے لاتعداد ایسے لوگ پیدا ہوئے جو اس ملک کی بڑی پہچان بنے۔ اس تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی خواہش ہر طالب علم میں موجود ہوتی ہے او رہر طالب علم کو خود کو ا رواین کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔
اس کی ایک بڑی وجہ اس تعلیمی ادارے کی تعلیمی ساکھ ہوتی تھی او ریہ ہی ساکھ اسے دیگر تعلیمی اداروں کے مقابلے میں منفرد بھی بناتی تھی۔ لیکن پچھلے کئی دہائیوں سے ہماری ہائر ایجوکیشن میں جو بگاڑ پیدا ہوا اس سے ہمارے بڑے تعلیمی ادارے بھی خود کو محفوظ نہیں بناسکے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں کی ساکھ اور دنیا میں جامعات کی سطح عالمی او رایشائی رینکنگ میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔
جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی جو معروف ماہر تعلیم، دانشوراور سماجی امور پر مختلف تحقیقات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں اس برس صدر پاکستان نے ان کو صدارتی ایورڈسے بھی نوازاہے جو اس ادارے کے لیے بھی اعزاز سے کم نہیں۔ پچھلے دنوں لاہور کے اہل دانش، کالم نگاروں اور صحافیوں اور کچھ اساتذہ کے ساتھ ان کی ایک فکری نشست کا اہتمام کیا گیا۔
وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے اگلے چار برسوں 2020-23تک کا اپنا اور اپنے ادارے کا تعلیمی وژن پیش کیا۔ اس نشست کی خاص بات ڈاکٹر صاحب نے بلا کسی ججھک یا ڈرو خوف کے اپنا مقدمہ کھل کر پیش کیا او راعتراف کیا کہ جو کچھ یہاں ہورہا تھا یا اب بھی ہورہا ہے وہ قابل فخر نہیں۔ ان کا بطور وائس چانسلر یہ اعتراف کہ ہم اپنے تعلیمی معیار میں بہت پیچھے چلے گئے ہیں، اہم بات تھی۔ کیونکہ عمومی طور پر اداروں کے سربراہان خود سے اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں او رسب اچھا کی رپورٹ دے کر سب کو خوش فہمی میں رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر اصغر زیدی جی سی یونیورسٹی میں اپنے چار سالہ دور میں کچھ بنیادی تعلیمی، انتظامی اور تحقیق کے میدان میں کام کرکے بہت کچھ بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے بقول و ہ ان چار برسوں میں کچھ اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ان میں تعلیم کا اعلی معیار، تحقیق کا کلچر جہاں آزدانہ بنیادوں پر تحقیق کی جائے اور اس کے لیے سازگار ماحول ہو، ادارے کی عالمی حیثیت کو برقرار رکھنا جس میں طالب اور استادوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنا اور علمی و فکری معلوماتی دوروں کو فروغ، انتظامی ڈھانچوں میں تبدیلیاں اور شفافیت کو پیدا کرنا، ادارے کی حکمرانی کے نظام کو موثر، شفاف اورجوابدہی کا پابند بنانا، ڈیجیٹل ترقی کو فوقیت دینا، جامعہ کی ایشیائی اور عالمی رینکنگ کے اشاریوں کو بنیاد بنا کر حکمت عملی وضع کرنا، بچوں اور بچیوں میں انٹرپینورشپ ماڈل کا فروغ، استاد، طالب اورانتظامیہ کے درمیان موثر رابطہ کاری، مستقبل کو جانچنے کے لیے کونسلنگ سینٹرز اور سماجی اور نفسیاتی مسائل کے لیے بھی سائیکلوجیکل سینٹرز کے قیام ان کی ترجیحات کا حصہ ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی اور گورننس کے سینٹرز کا قیام، پائیدار ترقی اہداف2015-30کو بنیاد بنا کر کام کرنا، نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خاتمہ، مکالمہ کے کلچر کا فروغ، نوجوانوں میں سماجی اہم اہنگی کا فروغ، جنسی خوف وہراس سے پاک ماحول، عدم برداشت کے کلچر کا خاتمہ، ادارے میں موجود مختلف سوسائٹیوں کو بنیاد بنا کر غیر نصابی اور علمی وفکری سرگرمیوں کا فروغ، کشمیر سینٹر کا قیام شامل ہے۔
ڈاکٹر اصغر زیدی کے بقول وہ اس ادارے میں اپنی اعلی ٹیم کی مدد سے پالیسی ساز اداروں یا افراد، مختلف فریقین کی باہمی مشاورت، ادارے کو تعلیمی حب بنانا، تحقیق اور شواہد کی بنیاد پر مقدمہ کی تشکیل اور تحقیق میں مختلف اداروں کے ساتھ کام کرنے کی حکمت عملی کو وضع کرنا ہوگا۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی او رگورننس کی مدد سے ریاستی و حکومتی سطح پر درپیش مسائل کی نشاندہی، ان مسائل کا حقیقی انداز میں تجزیہ جس میں جذباتیت کا رنگ نہ ہو، عملی اقدامات یا عملدرآمد کی تجاویز، ان امور کی نگرانی کرنا اور پھر ان کا جائزہ و تجریہ لے کر مستقبل کی طرف مزید پیش قدمی کو یقینی بنانا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ڈاکٹر اصغر زیدی کرسکیں گے۔ کیونکہ خواب بنانا یا دیکھنا الگ چیز ہے او راسے عملدرآمد ایک مختلف اور مشکل کام ہے۔ کیونکہ جو بھی فرد تبدیلی کی کوشش کرتا ہے تو اسے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ کیونکہ روائتی نظام کے بینیفشیرز آسانی سے تبدیلی نہیں کرنے دیتے۔
اس کام کے لیے ڈاکٹر اصغر زیدی کو دو محاذوں پر توجہ دینی ہوگی۔ اول اپنی ہی جامع سے ایک اچھی ٹیم کا انتخاب، دوئم ہائر ایجوکیشن کمیشن، صوبائی وزیر تعلیم گورنر پنجاب، میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت اعلی تعلیمی ماہرین کی مدد سے وہ اس ادرے کی بہتری میں فعال کردار ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ یہ کام کسی تنہا فرد کی کاوشؤں سے ممکن نہیں ہوگا۔