مضمحل ہو چکے قویٰ غالبؔ
اب عناصر میں اعتدال کہاں
مرزا غالب کا یہ شعر ہمارے حسب حال ہے۔ بڑھاپا رفتہ رفتہ ہم پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جسم کا ہر عضوکمزور پڑتا جا رہا ہے مگر ہم ہیں کہ زندگی کی جنگ میں ہار ماننے کو تیار نہیں کیونکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ:
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
رب کریم کی مہربانی سے ہم آخری دم تک یہ جنگ لڑتے رہیں گے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے ہم ایک نئے چیلنج سے نبرد آزما ہیں۔ حادثاتی طور پر ہماری دوسری آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی، جس کی وجہ سے ہمیں اپنے ہفتہ وارکالم کا سلسلہ برقرار رکھنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے لیکن شکر ہے خداوند کریم کا کہ اس نے ہمیں اس سلسلے کو برقرار رکھنے کے لیے ہماری صاحبزادی اور ہماری نواسی کی معاونت مہیا فرما دی ہے۔ اس طرح ہمارا اور آپ کا یہ رابطہ برقرار ہے۔
یوں تو انسان کا ہر عضو خالق کائنات کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن ان تمام اعضا میں آنکھوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، بلاشبہ بصارت کے بغیر دنیا اندھیر ہے اگر انسان بینائی سے محروم ہو جائے تو زندگی کا سارا تماشا بے کار ہے۔ سچ پوچھیے تو سارا کھیل آنکھوں کا ہی ہے۔ ہمارے کانوں میں اس نابینا درویش کی آواز کی گونج ابھی تک سنائی دے رہی ہے جو بار بار پکار رہا تھا " انکھیاں والو، انکھیاں بڑی نعمت ہیں " انگریزی کے بے بدل شاعر جون ملٹن اور ہندی زبان کے عظیم شاعر سورداس بڑے کمال کے لوگ تھے کہ بینائی سے محروم ہونے کے باوجود لافانی شاعری کا جادو جگا گئے۔
آنکھیں ہمارے شاعروں کا مرکزی موضوع رہی ہیں۔ ہر شاعر نے اپنے مخلص انداز میں آنکھوں کا تذکرہ کیا ہے۔ بیشتر شعرا نے محبوب کی آنکھوں کو اپنا موضوع بنا کر اپنے انداز بیاں کے جوہر دکھائے ہیں مثلاً فیض احمد فیض نے محبوب کی آنکھوں کے حوالے سے یہ تک فرما دیا کہ:
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
مشہور و معروف شاعر جاں نثار اختر نے آنکھوں کے بارے میں کیا خوب فرمایا ہے:
لوگ کہتے ہیں کہ تُو اب بھی خفا ہے مجھ سے
تیری آنکھوں نے تو کچھ اورکہا ہے مجھ سے
جگر مراد آبادی کا یہ شعر:
ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن
زباں میں آنکھ نہیں، آنکھ میں زبان نہیں
اور جلیل مانگ پوری نے آنکھوں کے بارے میں بڑے کمال کا شعر کہا ہے:
آنکھ راہزن نہیں تو پھر کیا ہے
لوٹ لیتی ہیں قافلہ دل کا
بلاشبہ آنکھوں کے موضوع کو ہر شاعر نے اپنے اپنے انداز میں خوب استعمال کیا ہے لیکن نریش کمار شادؔ نے تو بس کمال ہی کردیا وہ کہتے ہیں:
کون کہتا ہے مے نہیں چکھی، کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
آنکھیں محض شاعروں کا ہی موضوع نہیں ہیں بلکہ ہماری زبان میں استعمال ہونے والے خوبصورت محاوروں کی بنیاد بھی ہیں۔ اگر آنکھیں نہ ہوتیں تو یہ محاورے بھی معرض وجود میں نہ آتے۔ مثال کے طور پر یہ محاورے آنکھیں دکھانا، آنکھیں چرانا، دیدے مٹکانا، طوطا چشمی، ایک آنکھ نہ بھانا، آنکھیں لڑانا، آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل، آنکھوں کے اندھے، نام نین سکھ وغیرہ وغیرہ۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب امراض چشم کا علاج بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور لوگ معمولی معمولی امراض چشم کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم ہو جایا کرتے تھے لیکن جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی نے آنکھوں کی بڑی سے بڑی بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا ہے۔ چنانچہ آشوب چشم کا علاج نہ صرف ممکن بلکہ نہایت آسان ہو گیا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی اب بڑے بڑے ماہرین چشم اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں چنانچہ اب نئے سے نئے علاج دریافت ہو رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں بھی آنکھوں کے ایک بہت بڑے ماہر میسر آگئے ہیں جو ہمارا علاج نہایت دل سوزی اور محنت سے کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی ہے کیونکہ یہ محض ماہر امراض چشم ہی نہیں بلکہ ایک درد مند انسان بھی ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ موصوف انتہائی بااخلاق بھی ہیں یہ اپنے مریضوں کی بات بڑے غور اور انتہائی توجہ سے سنتے ہیں اور مریض کی تسلی ان کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اسپتال میں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور جو مریض ان کے پاس آتا ہے وہ شفایاب ہوکر ہی واپس جاتا ہے۔
ڈاکٹر حارث شہزاد کو یہ خوبیاں اپنے والد بزرگوار ڈاکٹر شہزاد سے ملی ہیں جو خود بھی ایک نامور ماہر امراض چشم ہیں۔ اللہ کی ذات پاک سے ہمیں قوی امید ہے کہ انشا اللہ ہماری بینائی بحال ہوگی آمین! تاہم قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری شفایابی کے لیے صدق دل سے دعا فرمائیں۔