گزشتہ چند ماہ کے دوران بادِ فنا کے جھونکوں نے طوفان کی صورت اختیار کرلی ہے جس کی زد میں آکر علم و ادب، فکر و فن اور صحافت و سیاست کے روشن چراغ یکے بعد دیگرے گل ہو رہے ہیں:
جن کے دم سے تھی بزم کی رونق
ہائے وہ لوگ اٹھتے جاتے ہیں
یہ گوہرِ نایاب اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔ اسی قبیل کے لوگوں کے بارے میں اقبال نے یہ کہا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اس تحریر کا مقصد ان عظیم اور نابغہ روزگار ہستیوں پر تبصرہ کرنا ہرگز نہیں کہ یہ ہمارا نہ منصب ہے اور نہ مقام۔ ان کی عظمت کو بیان کرنا بھی سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے اس قلم برداشتہ کا واحد اور اصل مقصد صرف اور صرف ان رفتگان کو خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کی یاد کو تازہ رکھنا ہے۔
آغاز کلام ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کے سانحہ ارتحال سے کہ جو علم و دانش کے کوہِ گراں، پرچمِ اسلام کے علم بردار اور اردو ڈائجسٹ کے بانی و مدیر اعلیٰ تھے۔ اس کے علاوہ وہ "کاروان علم فاؤنڈیشن" جیسے عظیم خدمتی ادارے کے بانی اور روح رواں بھی تھے جو غریب و نادار گدڑی کے لعلوں کی تعلیم کے لیے مالی اعنات فراہم کرکے علم کے چراغ روشن کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہمارا ایک بالواسطہ تعلق بھی تھا اور وہ یہ کہ مرحوم ہمارے پیارے دوست اطہر اعجاز کے والد بزرگوار تھے۔ اردو ڈائجسٹ کے حوالے سے انھیں اگر محسن اردو کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ بلاشبہ وہ ایک عہد ساز شخصیت کے مالک اور Trend Setter تھے۔
آبروئے صحافت، عبدالقادر حسن بھی اسی چل چلاؤ کے سیل رواں کی نذر ہوگئے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے "بزم ایکسپریس" سونی اور ویران محسوس ہوتی ہے۔ بقول شاعر:
آ کہ تجھ بن دوست کچھ اس طرح گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
بلاشبہ وہ اردو صحافت کے نکتہ داں بلکہ میر کارواں تھے۔ ان کی صحافت برسوں کی ریاضت سے عبارت تھی۔ صداقت، جرأت اور صاف گوئی ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی تھے۔ وہ ایک صاحب اسلوب قلم نویس تھے اور ان کی تحریروں پر ان کی چھاپ نمایاں نظر آتی ہے۔ مستقبل کے کالم نویس ان کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
موت کا ریلا عظیم سیاستدان اور وطن عزیز کے شریف النفس سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کو بھی بہا کر لے گیا۔ انھیں ملک کے سب سے بڑے مگر سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کا واحد وزیر اعظم ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ میر حاصل بزنجو (مرحوم) کی طرح وہ بھی سیاست برائے خدمت کے قائل تھے اور اعتدال اور نرم خوئی ان کی شناخت تھی۔
ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنھیں ان سے متعدد ملاقاتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ کوئٹہ ریڈیو اسٹیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ہماری ان سے کافی قرابت رہی جو ہمارے لیے سرمایہ حیات سے کم نہیں۔
خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
علم و ادب کے شعبے سے وابستہ کسی بھی عظیم ہستی کی رحلت ایک ناقابل تلافی نقصان اور بہت بڑے سانحے سے کم نہیں۔ وطن عزیز کے ایک نہایت لائق اور معروف ماہر تعلیم و دانشور غلام علی الانہ المعروف جی۔ الانہ طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔ الانہ صاحب ایک ماہر تعلیم ہونے کے علاوہ ایک بلند پایہ ماہر لسانیات بھی تھے۔ سندھ یونیورسٹی کے کامیاب ترین وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی ان کی مثالی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ وہ ایک نابغہ روزگار تھے۔
ان سے ہمارا تعارف اس زمانے میں ہوا جب ہم بحیثیت اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان، حیدرآباد تعینات کیے گئے اور ہم نے فاران کلب، حیدرآباد، سندھ یونیورسٹی اور ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے باہمی تعاون سے دیال داس کلب، حیدرآباد میں ایک عظیم الشان مشاعرے کا انعقاد کیا جس کی صدارت جناب قتیل شفائی نے کی اور نظامت کے فرائض سندھی زبان کے معتبر قلم کار اور شاعر اور براڈ کاسٹر نصیر مرزا نے انجام دیے۔ فاران کلب کے روح رواں جناب نذر محمد قریشی اس تقریب کے سرگرم ہم رکاب تھے۔ اس سلسلے میں الانہ صاحب کے ساتھ ہماری متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ اور قرب حاصل ہو۔
درویش صفت شاعر میر دردؔ نے انبوہِ مرگ کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا وہ ان اصحاب رفتگاں کے حوالے سے اس وقت بے ساختہ یاد آ رہا ہے:
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے