Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bare Be Aabroo Hokar Tere Kooche Se Hum Nikle

Bare Be Aabroo Hokar Tere Kooche Se Hum Nikle

یوں تو ہر نشہ ہی برا ہوتا ہے لیکن اقتدار اور طاقت کے نشے سے بری کوئی چیز نہیں۔ اسی لیے ہمارے دین میں نشے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہے، جب طاقت کے نشے میں چُور مطلق العنان حکمرانوں نے امن و سکون غارت کردیا اورطاقت کے زور پر لوگوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔

چنگیز خان، ہلاکو خان، ہٹلر اور مسولینی اس کی چند مثالیں ہیں۔ مشہور سیاسی مفکر لارڈ ایکٹن(Lord Ecton) کا قول ہے کہ طاقت انسان کو خراب کردیتی ہے اور حد سے زیادہ طاقت اسے مکمل طور پر خراب کردیتی ہے۔ اہل مغرب کا خیال تھا کہ عوام کو مطلق العنان حکمرانوں کی زد سے بچانے کا بہترین طریقہ جمہوری نظام ہے۔ چنانچہ انھوں نے پارلیمانی نظام حکومت کا انتخاب کیا۔ اس نظام کی آزمائش سب سے پہلے برطانیہ میں کی گئی۔ اس کے بعد دنیا کے دیگر ممالک نے اس نظام کو اختیارکیا، جن میں ہمارا ملک پاکستان بھی شامل ہے۔

اس نظام کی کمزوریوں اور خامیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے امریکا میں صدارتی جمہوری نظام رائج کیا گیا، جس کی بنیاد Checks and Balances کے طریقہ کار پر رکھی گئی۔ اس نظام کے تحت ہر ادارے کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا گیا تاکہ کوئی بھی ادارہ بے لگام ہو کر من مانی نہ کرسکے۔ امریکیوں کو اپنے اس نظام پر بڑا فخر تھا اور ان کا خیال تھا کہ یہ نظام سب سے بہترین نظام ثابت ہوگا، لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا ٹرمپ کارڈ استعمال کرکے اس خیال کو باطل ثابت کردیا ہے اور اس کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔

ٹرمپ کا چار سالہ دور حکمرانی امریکی تاریخ کا سیاہ ترین دور ثابت ہوا۔ ان چار برسوں کے دوران زبردست اتھل پتھل رہی۔ ایسی ہلچل اس سے قبل کبھی دیکھی نہیں گئی۔ سیماب طبیعت ڈونلڈ ٹرمپ نے مست ہاتھی کی طرح بہت سی پرانی اقدار اور روایات کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا۔ اخلاقیات سے انھیں کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان کی حرکات نے عالمی امن کو شدید خطرات سے دوچارکردیا اور دنیا کے لوگوں کو یہ اندیشہ لاحق ہو گیا کہ کسی بھی وقت تیسری عالمی جنگ چھڑسکتی ہے۔ اس اندیشے نے لوگوں کی نیندیں حرام کردیں۔ انھوں نے اپنی پالیسیوں سے امریکا کی ساکھ اور امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا جس کی تلافی کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ ان کے دور میں کالوں اور گوروں کے امتیاز نے بھی بد ترین رخ اختیار کرلیا اور سابق امریکی صدر بارک اوباما کے کیے دھرے پر پانی پھرگیا۔ اس کے نتیجے میں امریکی معاشرہ بری طرح تقسیم ہو گیا۔

ٹرمپ کی اسلام دشمن پالیسیوں نے نہ صرف امریکی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو بھی بری طرح بدظن کردیا۔ جس میں امریکا کی شہریت رکھنے والے مسلمان بھی شامل ہیں۔ ٹرمپ کے دور حکومت میں اسرائیل کی غیر معمولی پشت پناہی ہوئی جس کے نتیجے میں بعض مسلم ممالک نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرکے مسلم امہ کے اتحاد میں ناقابل تلافی دراڑیں ڈال دی ہیں۔ بعض غیر ملکیوں کی امریکا میں آمد پر عائد کی گئی پابندیوں نے بھی صدر ٹرمپ کے ہاتھوں امریکا کی عالمی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچایا۔

یاد رہے کہ امریکا کی ترقی میں وہاں آکر مقیم ہونے والے تارکین وطن کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ جن کی صلاحیتوں کی بدولت امریکا کو دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل ہوا۔ امریکا میں کورونا کی وبا نے جو قیامت صغریٰ برپا کی ہوئی ہے اس کے ذمے دار بھی ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکی معیشت کی بھی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ شدت، ضد، ہٹ دھرمی اور سیمابی طرز عمل ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے خمیر میں شامل ہیں اور من مانی ان کی فطرت کا لازمی جزو ہے۔ ان کی اس تلون مزاجی نے امریکا کو تباہی اور بدنامی کے آخری سرے تک پہنچا دیا ہے۔

اقتدارکی ہوس نے انھیں دوسری بار امریکی صدر بننے پر بہت اکسایا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ کامیاب ہو جائیں گے، مگر ان کی ساری امیدیں اور خوش فہمیاں اس وقت دھری کی دھری رہ گئیں جب امریکی عوام نے انھیں مسترد کرکے آئینہ دکھادیا۔ کوئی غیرت مند ہوتا تو وہ اپنی شکست کو باآسانی تسلیم کرلیتا۔ لیکن ٹرمپ نے امریکا کی تاریخ میں الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرکے ہٹ دھرمی کا ایک ریکارڈ قائم کردیا ہے، جس سے آج دنیا بھر میں امریکا کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔

انتہا یہ ہے کہ انھوں نے ایوان صدر کو خالی کرنے سے بھی انکارکردیا ہے، جس کے نتیجے میں نئے صدر جوبائیڈن کے وائٹ ہاؤس میں داخلے کے لیے انھیں جبراً نکالنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ اس بے دخلی کے بارے میں اس کے سوائے بھلا اورکیا کہا جاسکتا ہے کہ:

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن

بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

صرف یہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پیشانی پر یہ داغ بھی لے کر جا رہے ہیں کہ وہ امریکا کے واحد صدر ہیں کہ جن کا دو مرتبہ مواخذہ کیا گیا ہے۔