2 دسمبرکی مبارک تاریخ کو ریاست ہائے متحدہ عرب امارات نے حسب روایت اپنا قومی دن بڑی دھوم دھام سے منایا۔ یہ یو اے ای کا 49 واں قومی دن تھا۔ 7 متحدہ عرب ریاستوں پر مشتمل یواے ای کے اس قومی دن پر پاکستانی عوام اور حکومت نے اپنے اس انتہائی قریبی دوست اور ہم مذہب ملک کے پرمسرت موقعے پر تہہ دل سے مبارک باد پیش کی۔
دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا یہ رشتہ برسوں پرانا ہے جس کے قیام کے لیے ریاست کے بانی عزت مآب مرحوم شیخ زید بن سلطان النہیان کی خدمات کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مرحوم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں بلند مقام عطا کرے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ متحدہ عرب امارات نے شیخ النہیان کی ولولہ انگیز قیادت میں بے حد ترقی کی ہے جس کی پوری دنیا معترف ہے۔ متحدہ عرب امارات کے اس مثالی حکمران نے ترقی کے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ ان کے جانشینوں کی قیادت میں مسلسل جاری ہے اور آج صورت حال یہ ہے کہ صحرا پر خوبصورت نخلستان کا گمان ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان نے بھی اپنے اس برادر اور دوست ملک کی ترقی میں بھرپور اور قابل تحسین کردار ادا کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی تعمیر و ترقی میں پاکستانی مزدوروں، محنت کشوں اور ماہرین کا خون پسینہ شامل رہا ہے۔ یہ تعاون دو چار برس کی بات نہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔
1971 میں متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد پاکستان دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اسے آگے بڑھ کر نہایت پرجوش انداز میں نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ اس کی جانب دست تعاون بھی دراز کیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک پاکستان نے دوستی کے اس رشتے کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اسے وسیع سے وسیع تر کرنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستانی کمیونٹی تب سے لے کر آج تک یو اے ای کی ترقی اور تعمیر میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ دونوں ممالک میں تاریخی، ثقافتی اور معاشی رشتے قائم ہیں۔ پاکستان متحدہ عرب امارات کو جس قدر اہمیت دیتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب گزشتہ دنوں شیخ محمد بن زید پاکستان کے دورے پر اسلام آباد تشریف لائے تھے تو وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے انتہائی قرابت کا ثبوت دیتے ہوئے ان کی گاڑی بذات خود ڈرائیوکی تھی۔
اس سے قبل وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد عمران خان نے متحدہ عرب امارات کا نہایت اہم اور پہلا دورہ کیا تھا جس سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان اسے کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ رشتے پرخلوص باہمی تعاون کی بنیاد پر قائم ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ایک پڑوسی ملک کو ان دونوں ممالک کے درمیان ان روابط سے پریشانی لاحق ہے۔ چنانچہ اس کی کوشش ہے کہ دوستی کے ان رشتوں کو کسی بھی طرح کمزورکیا جائے۔ اس کی یہ مذموم کوشش صرف متحدہ عرب امارات تک ہی محدود نہیں بلکہ پورے عالم اسلام تک دراز ہے۔ اسی مقصد سے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلم ممالک کے ساتھ دوستی اور تعاون کی پالیسی اختیار کی ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون میں رنگے ہوئے ہیں اور جس کے ہم خیال لوگوں نے بھارت کی مشہور تاریخی مسجد المعروف بابری مسجد کو دسمبر کے مہینے میں شہید کیا تھا۔
بھارت کی متعصب موجودہ حکومت کی اسلام دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھارتی مسلمانوں بالخصوص کشمیری مسلمانوں پر اس کے درندانہ مظالم سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دے لیکن اس کے باوجود دوسری جانب وہ مسلم ممالک کے ساتھ اپنی پینگیں بڑھانے میں سرگرم ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ کا گزشتہ دورہ یو اے ای اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ابھی حال ہی میں بھارت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی یو اے ای کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد بھی یہی تھا۔ بھارتی قیادت کی یہ حکمت عملی نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ فوری اقدام کی متقاضی ہے، کیونکہ اگر اس معاملے میں کوئی تاخیر کی گئی تو اس کے نتائج کسی بھی صورت اچھے نہ ہوں گے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یو اے ای میں خدمات انجام دینے والے پاکستانیوں کو روزگار کے مسائل پیش آنے شروع ہوگئے ہیں اور ان کی تعداد میں کمی آتی ہوئی نظر آ رہی ہے جب کہ دوسری جانب بھارتی شہریوں کو کاروبار اور روزگار میں بہتری اور ترقی کے آثار نمایاں ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ شہنشاہ بابر کے نام پر تعمیر کی گئی تاریخی بابری مسجد کو شہید کرانے میں ملوث بھارت کے موجودہ حکمران نہایت بے شرمی کے ساتھ بھارت کی شان دکھانے کے لیے بھارت کا دورہ کرنے والے امریکی صدر ٹرمپ کو بابر کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بادشاہ شاہجہان کا تعمیر کرایا ہوا دنیا کا ساتواں عجوبہ تاج محل دکھانے کے لیے لے گئے تھے۔
بھارتی حکمرانوں کی عیاری اور مکاری کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں اور دوسری طرف مسلم ممالک کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر ان کے وسائل سے بے انتہا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔ یہ گمبھیر صورت حال بھارت کی کامیاب سفارت کاری اور پاکستان کی کمزور ڈپلومیسی کی غمازی کرتی ہے نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ جس یو اے ای میں پاکستانیوں کی انتہائی پذیرائی کی جاتی تھی وہاں اب حالات ان کے لیے ناسازگار ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستانیوں کو اب وہاں سے رفتہ رفتہ فارغ کیا جا رہا ہے اور حالت یہ ہے کہ:
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
ابھی حال ہی میں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی یو اے ای کا دورہ کرکے وطن عزیز واپس آئے ہیں۔ اگرچہ یہ دورہ کافی تاخیر سے ہوا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے لیکن امید کی جاتی ہے کہ اس دورے کے پاکستان اور پاکستانیوں کے حق میں اچھے نتائج سامنے آئیں گے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اولین فرصت میں یو اے ای کا دورہ کریں اور پاکستان اور پاکستانیوں کے حق میں حالات سازگارکریں۔ مزید تاخیرکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔