کشمیر اور فلسطین میں یہود و ہنود کا سازشی عمل ختم ہونے میں نہیں آرہا اور وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے، دونوں ہی جگہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور پوری دنیا کھلی آنکھوں سے یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے کا حال یہ ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم۔ برسوں گزر گئے لیکن یہ ادارہ اپنی سلامتی کونسل کی منظورکردہ قراردادوں پر عمل نہیں کراسکا۔ مسلم ممالک کی تنظیم بھی بھارت کے زیر تسلط کشمیرکے سنگین مسئلے کے بارے میں محض قراردادیں منظورکرنے کے سوا اور کچھ بھی نہ کرسکی۔
نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ بھارت کی مسلم دشمن بی جے پی کی حکومت نے بھارت کے آئین کے ساتھ کھلواڑکرکے نقشہ ہی بدل دیا۔ دنیا بھر میں اپنے سیکولر ازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت نے مسلمانوں اور خاص طور سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
بی جے پی جب سے برسراقتدار آئی ہے تب سے بھارت کی جمہوری حکومت بے نقاب ہوگئی ہے اور ساری دنیا پر یہ عیاں ہو چکا ہے کہ بھارت کا سیکولر ازم اور جمہوریت کا پروپیگنڈا ایک ناٹک کے سوا اورکچھ نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کسی نہ کسی حیلے بہانے سے آئے دن کسی نہ کسی کشمیری مسلمان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتی رہتی ہے، چنانچہ ابھی حال ہی میں اس نے تین کشمیری نوجوانوں کو گھیرکر نہایت سفاکی کے ساتھ شہید کردیا۔
ان کے خلاف الزام یہ عائدکیا گیا کہ یہ لوگ دہشت گرد تھے حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ٹیوشن پڑھانے کے لیے جا رہے تھے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
نئے سال کا آغاز ہوچکا ہے لیکن اس صورتحال میں بہتری توکجا مزید ابتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آزادی کے متوالوں کے حوصلے بھی بلند سے بلند تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر روز جرأت اور جاں بازی کے نئے نئے مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ جب گزشتہ سال 27 اکتوبرکو بھارت کی بی جے پی سرکار نے مقبوضہ ریاست کی شناخت کو مسخ کرنے کی کوشش کی، اس وقت سے ہی مظلوم کشمیریوں پر دائرہ حیات تنگ سے تنگ ترکرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت آبادی کے تناسب کو بدلنے کے لیے جموں کشمیر سے متعلق تیسرا خصوصی حکم نامہ جاری کیا گیا، جس کا مقصد مقبوضہ ریاست کی آبادی کے تناسب کو مسلمانوں کے خلاف اور اقلیتی ہندو آبادی کے حق میں بدلنے کی شروعات کی گئی، جو تاحال جاری ہے۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کر دیا جائے اور اس کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق وادی میں استصواب رائے کرانے پر آمادگی ظاہرکردی جائے۔
بھارت کی مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی صدائے آزادی کوکچلنے کے لیے نت نئے نئے حربے استعمال کر رہی ہے۔ پریس کی آزادی کو سلب کر رہی ہے۔ اس سلسلے کا پہلا قدم روزنامہ کشمیر ٹائمزکی اشاعت پر پابندی کی صورت اٹھایا گیا ہے، جس کے تحت اخبارکے دفترکو سر بہ مہر کر دیا گیا۔ اس اخبارکا قصور یہ تھا کہ وہ کشمیریوں کی جدو جہد کے حقوق میں آواز اٹھا رہا تھا۔ کشمیر نیوز سروس کا دفتر بھی سیل کردیا گیا۔ دوسری جانب مقبوضہ جمو ں وکشمیر کی پوری انتظامی مشینری بی جے پی سرکار کے حامیوں کے حوالے کردی گئی ہے۔
لوکل گورنمنٹ غیر مسلم ہے، چیف سیکریٹری بھی غیر مسلم ہے اور اس کے علاوہ ڈویژنل کمشنر غیر مسلم، دونوں آئی جی غیر مسلم اور پورا عملہ غیر مسلم ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ماسوائے دو مسلمان ججوں کے ہائی کورٹ کی پوری بنچ غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔
تمام ڈپٹی کمشنرز اور ایس پیز بھی غیر مسلم ہی ہیں۔ گویا پورے کا پورا ادارہ غیر مسلموں پر مشتمل ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تعزیرات کے ساتھ بھی کھلواڑکی گئی ہے جس کا مقصد من مانی کرنا ہے۔ قانون کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے لوگوں کو جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد اپنے مچلکوں کی بنیاد پر رہائی دے کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔ بھارت چاہے جو بھی کر لے ظلم و ستم کی سیاہ رات کبھی نہ کبھی ڈھل کر ہی رہے گی۔ ساحر لدھیانوی کا کہا ہوا آخرکار سچ ثابت ہوا:
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے روکا ہے سویرا