اس وقت دنیا توانائی کے بحران کی زد میں ہیں۔ کووڈ19 کے دوران دنیا میں توانائی کے استعمال میں بہت کمی آئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب تیل کی قیمت منفی میں چلی گئی۔ تیل کے جہاز کوئی مفت لینے پر بھی راضی نہ تھا۔ جب کرونا کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی اور دنیا کی اکانومی کا پہیہ چلنے لگا تو توانائی کا استعمال دوبارہ اپنے معمول پے آنے لگا۔ کرونا کو دوران توانائی کی پیداوار میں بھی کافی کمی آئی اب یہ پیداوار کم ہے اور توانائی کی طلب زیادہ ہے۔
دنیا میں سب سے بڑا خریدار چین ہے۔ اب جب کرونا کے بعد چین کی اکانومی چل پڑی ہے چین کی توانائی کے ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں میں 500 فی صداضافہ ہو گیا۔ سارا یورپ توانائی کے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ گیس کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے تیل اور کوئلہ کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تیل کی قیمت اپنے عروج پر ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں توانائی کی قیمتوں میں اگست کے مہینے میں 18 فی صداضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
برطانیہ اپنی بجلی کی مانگ 24 فی صد ونڈ انرجی سے پوری کر رہا تھا۔ اور برطانیہ کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم برطانیہ کو ہوا کا سعودی عرب بنا دینگے۔ اب اس سال موسم گرما میں ہوا بہت کم چلی ہے اور اس موسم گرما کو ونڈلیس سمر کا نام دیا گیا ہے۔ اب برطانیہ میں ہوا سے بہت کم توانائی پیدا ہوئی ہے۔ اگر یہ صورتحال جاری رہتی ہے تو توانائی کے متبادل ذرائع پر بھی انحصار کم ہو جائے گا اور بوجھ سارا تیل اور گیس اور کوئلہ پر آجائے گا۔ جیسے سردی کا موسم آئے گا برطانیہ اور اٹلی کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ ان ملکوں کا انحصار گیس پر زیادہ ہے۔
پاکستان میں تیل اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت 100 روپے سے 150 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ گیس کا سلنڈر جو پچھلے سال 1500 کا تھا اب 2600 تک پہنچ چکا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے سردی کے عروج پر گیس کا سلنڈر 3000 تک جا سکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس وقت دنیا میں توانائی کے بحران نے ایک ہنگامی صورتحال کھڑی کر دی ہے۔ توانائی کی آسمان سے چھوتی قیمتیں ساری دنیا کی صنعتی ترقی کو متاثر کرے گی۔ امیر ملک میں زندگی مشکل ہو سکتی ہے۔ غریب ممالک کی توانائی کی ضروریات کم ہیں اور وسائل بھی کم ہیں۔ اگر ہم دنیا کے مختلف ممالک کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلے گا دنیا میں توانائی کے بحران کی کیا صورتحال ہے۔
آسٹریلیا میں کوئلے کی قیمت میں 250 فی صداضافہ ہو چکا ہے آسٹریلیا کی 80 فی صد تیل اور گیس امپورٹ کرتا ہے۔ روس نے گیس کی سپلائی یورپ کو کم کر دی ہے۔ جرمنی اور برطانیہ روس کی اس پالیسی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔ امریکہ میں 40 فی صد بجلی گیس سے پیدا کی جاتی ہے امریکہ میں کوئلے کی قیمت 400 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب ایک ٹن کوئلے کی قیمت 270 ڈالر ہے۔ امریکہ میں توانائی کے متبادل ذرائع 10 فی صد سے کم ہیں۔
چین نے گزشتہ دنوں اعلان کیا ہے وہ کھاد کی برآمدات روک دے گا اس سے کھاد کی قیمتیں ساری دنیا میں بڑھ جائیں گی۔ کھاد کی قیمت جو پہلے 300 ڈالر فی ٹن تھی اب 1000 ڈالر فی ٹن ہو چکی ہے۔ اب کھاد کی قیمت میں اضافہ کا اثر زرعی اجناس کی کم پیداوار ہو گی اور اس طرح آنے والے دنوں میں فوڈ آئیٹم کی قیمتوں میں آضافہ ہو جائے گا۔ یورپ میں گیس کی قیمت 30 ڈالر معکب میٹر برٹش تھرمل یونٹ ہو چکی ہے جو کہ 180 ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت کے برابر ہے۔ تانبے کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے اب اسکی قیمت ساڑھے چار ڈالر فی پونڈ ہے۔
امریکہ میں تیل کی مانگ سال کے آغاز میں 93 ملین بیرل روزانہ تھی۔ جو اب 98 ملین بیرل روزانہ پر پہنچ چکی ہے اور مستقبل میں 100 ملین بیرل روزانہ سے بڑھ سکتی ہے۔ گیس کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کے اثرات بہت زیادہ ہو سکتے ہیں۔ کھاد کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔ سرامک، سیمنٹ اورشیشے کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان، بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی رک سکتی ہے۔ انڈیا کی ضروریات توانائی پیدا کرنے کے لئے کوئلہ پر بہت انحصار کرتی ہیں۔ کوئلے کی قیمتوں کا اضافہ انڈیا کی معاشی ترقی پر بہت پڑے گا۔
توانائی پیدا کرنے کے تمام ذرائع تیل، گیس، کوئلہ مہنگے ہو رہے ہیں۔ اب تمام صنعتیں ان پر انحصار کرتی ہیں۔ بجلی گیس، کوئلہ اور تیل سے پیدا ہوتی ہے اب جب یہ ذرائع مہنگے ہونگے تو بجلی مہنگی ہو گی، بجلی مہنگی ہوگی تو تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ گیس کھاد کی پیداوار میں بنیادی جزو ہے۔ گیس کی قیمت بڑھنے سے کھاد کی قیمت بڑھے گی۔ کھاد کی قیمت بڑھنے سے تمام زرعی اجناس کی قیمت میں اضافہ ہوگا۔ گوشت، انڈے، دودھ کی قیمت بڑھے گی۔ آنے والے دنوں میں ساری دنیا میں مہنگائی کا ایک سیلاب آسکتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ متاثر وہ لوگ ہونگے۔ جن ملکوں میں تیل، گیس اور کوئلہ درآمد ہوتا ہے۔
پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں پر نہ ضرورت کے مطابق تیل ہے، نہ گیس اور نہ کوئلہ۔ یہاں پہلے ہی مہنگائی کا ایک سیلاب ہے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کتنی حکومتیں اس مہنگائی کے سیلاب میں بہہ جائیں گی ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ کہتے ہیں ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا۔ ایک ہماری حکومت کی نالائقی ہے اور دوسرے حالات بھی مشکل ہو رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کو ایک سنجیدہ قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کو موجودہ اور آنے والے بحرانوں سے نکا ل سکے۔
پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی ناتجربہ کار قیادت کو بھگت رہا ہے۔ آئے دن کوئی ہنگامہ کھڑا رہتا ہے اور ساری دنیا اس وقت توانائی کے بحران کی زد میں ہے اور ہم ابھی تک اس کا ادراک بھی نہیں کرسکے آنے والے دنوں ملک کی زراعت کو کن مسائل کا سامنا ہوگا ابھی قیاس کرنا مشکل ہے۔