Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Khaas Log

Khaas Log

زندگی کی افراتفری میں ہم اپنے اردگرد ان لوگوں کو بھول جاتے ہیں جو قدرتی طور پر ان نعمتوں سے محروم ہیں، جن کے بنا زندگی گزارنا دشوار ہے لیکن وہ لوگ بہت عظیم ہیں جو حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں اور رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں نے دنیا کو سمجھا دیا ہے کہ وہ قابل رحم نہیں ہیں بلکہ عام انسانوں کی طرح اپنی زندگی بسرکررہے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی نئی شمعیں روشن کر رہے ہیں۔ آنکھیں بڑی نعمت ہیں اور اس کی اہمیت کس قدر ہے یہ ان لوگوں سے پوچھیے جو اس نعمت سے محروم ہو کر بھی اپنے رب کی رحمتوں سے مایوس نہیں ہیں، تین دسمبر معذوروں کا عالمی دن تھا ویسے تو اس روز ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے لیکن اس طرح کی تقریبات سے ہم جیسے عام لوگوں کو بھی پتا چلتا ہے کہ ہمارے درمیان اتنے خاص لوگ بھی ہیں جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر زندگی میں اس طرح سے سرگرم عمل ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے سلام ہے ایسے پیارے لوگوں کو۔

اسلام آباد میں بھی اسی طرح کی ایک تقریب پاکستان ڈس ایبلڈ فاؤنڈیشن کے تحت ہوئی، معذور خواتین کی اس پانچویں قومی کنونشن کا مقصد یہی تھا کہ ایسی خاص خواتین کی محنتوں اور جدوجہد کو سامنے لایا جائے تاکہ دوسرے اس طرح کے خاص لوگ انھیں دیکھ کر ہمت پکڑیں اور ہمارے یہاں ان کے لیے قانون سازی کے لیے ایک سطح ہموار ہو، اور عام لوگوں میں بھی اس سلسلے میں شعور اجاگر ہو۔

ہمارے یہاں ایک عام سی سوچ ہے کہ بصارت سے محروم اشخاص زندگی میں ناکام رہتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے عزم و ہمت کی ایسی داستانیں کہ جنھیں سن کر یقین ہی نہیں آتا کہ ہمارے اپنے ملک میں خواتین جنھیں مردوں کے مقابلے میں کم ہمت اور کمزور سمجھا جاتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ بصارت سے محروم خواتین کے ایسے ایسے کمالات کہ جنھیں دیکھ کر طبیعت عش عش کر اٹھے۔

پاکستان میں نابیناؤں کی فلاح و بہبود کے لیے 1964 میں پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ کی بنیاد ڈاکٹر آئزہ بیلا گرانٹ کی رہنمائی میں رکھی گئی، ڈاکٹر فاطمہ شاہ اور اس ایسوسی ایشن کا ساتھ تب سے ہی ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ شاہ نے بیگم رعنا لیاقت علی کے ساتھ مل کر اپوا کے تحت بہت بڑے بڑے کام انجام دیے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی آپ کی خدمات قابل ذکر تھیں لیکن 1956 میں ان کی آنکھوں میں موتیا اتر آیا اور آپریشن کی ناکامی کے بعد وہ بصارت کی نعمت سے محروم ہوگئیں۔ ایک ڈاکٹر، سوشل ورکر اور ماں کی دنیا اندھیری ہوگئی وہ چار سال تک تنہائی کا شکار رہیں جس وقت ان کے ساتھ یہ سانحہ گزرا ان کی عمر بیالیس برس تھی۔

ڈاکٹر آئزہ بیلا گرانٹ ان دنوں پاکستان میں نابیناؤں کے لیے عملی اور تنظیمی مشن پر تھیں انھوں نے ڈاکٹر صاحبہ کو ہمت دلائی اور یوں 1960 میں وہ زندگی کی جانب لوٹیں تو کچھ اس طرح کے پھر ان کی زندگی نابیناؤں کے لیے جیسے وقف ہوگئی۔ علی گڑھ یونی ورسٹی میں ٹاپ کرنے والی ڈاکٹر فاطمہ نے ثابت کر دکھایا کہ بصارت کے بنا بھی ان کی صلاحیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑا اور یوں نابیناؤں کو بھی زندگی کے مختلف شعبوں میں سرکار نے ملازمت دینے کا آغاز کیا۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن میں بریل پریس کا قیام بھی ڈاکٹر فاطمہ شاہ کی تحریک کا نتیجہ تھا۔

اسلام آباد میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے انگریزی کی پہلی لیکچرار بصارت سے محروم خاتون پروفیسر پروین محمود تھیں گو اس وقت نابینا افراد کے لیے تعلیم کے وسائل کم تھے لیکن پروفیسر پروین اپنی ہمت اور ٹیلنٹ سے کسی کمی کو محسوس کیے بغیر پڑھانے کے عمل میں مصروف رہیں اور اب ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے ساتھیوں اور طالب علموں کے لیے ایک شان دار مثال کی مانند ہیں۔

ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی سینئر پروڈیوسر ہما شایان بھی اسی راہ گزر کی مسافر ہیں جنھوں نے اپنی بصارت کی کمی کو خوش دلی سے قبول کرتے ہوئے پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے پہلے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور ساتھ ہی الیکٹرانکس میں اسپیشلائزیشن کیا۔ اس دوران ایف ایم ریڈیو پر میزبان کے فرائض بھی انجام دیے اور اپنی قابلیت اور عزم سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ ہما پہلی نابینا خاتون ہیں جو براڈ کاسٹنگ کے پروڈکشن کے شعبے میں داخل ہوئیں۔ وہ ریڈیو پر بھی نابیناؤں کے لیے پروگرام کرتی رہی ہیں اور کئی سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کرچکی ہیں۔ ازدواجی زندگی میں بھی وہ اپنے انجینئر شوہر اور دو پیارے بچوں کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کر رہی ہیں۔

ارم ناز سیالکوٹ سے ستر کلو میٹر دور سیفل نامی گاؤں میں پیدا ہوئیں جہاں ان کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے ذرایع نہیں تھے لہٰذا انھوں نے 2009 میں سیالکوٹ کا سفر کیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ ارم ناز کا خواب تھا کہ وہ نابینا افراد کے لیے ایک ایسا ادارہ قائم کریں جو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے کام آئے اور ان کی انتھک جدوجہد سے 2020 میں ٹریول ٹو لائٹ ایجوکیشن سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے یہاں پردے کا بھی اہتمام ہے اور اساتذہ بھی الگ الگ ہیں۔

اب تک سو سے زائد خواتین اس ادارے سے مستفید ہو چکی ہیں یہاں انکلوسیو ایجوکیشن، آڈیو لائبریری، بریل کتب کے علاوہ مختلف قسم کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے جس میں کمپیوٹر، ووکیشنل اسکلز، پیرنٹ سیشن، اسٹوڈنٹ کاؤنسلنگ، کوکنگ اور موبیلٹی کورسز بھی کروائے جاتے ہیں۔ یہ ادارہ ضرورت مند بچوں کو کپڑے پہنچانے کا کام بھی انجام دے رہا ہے اور اس ادارے کی خواہش ہے کہ یہ ان علاقوں میں پہنچے جہاں کوئی نہ پہنچا ہو اور اس طرح یہ نابینا افراد کی تعلیم و تربیت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ نابینا افراد لیے والے نہیں ہیں اسی لیے یہ ایسے خاص لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بینک سے قرضے بھی لے کر دے رہے ہیں۔

میرپور آزاد کشمیر کی مہم جو نابینا خاتون نسیم فاطمہ بھی ان باہمت خواتین میں سرفہرست ہیں جن میں علم حاصل کرنے کی تڑپ اور اپنے ہی جیسے نابینا افراد کے لیے کام کرنے کا جنون تھا اور علم سے محبت کا جذبہ انھیں کراچی لے آیا یہاں انھوں نے بریل سیکھی، تب انھیں احساس ہوا کہ آزاد کشمیر میں بھی نابیناؤں کے لیے کوئی ایسا ادارہ ہو، اس وقت آزاد کشمیر کے ممتاز رہنما اور صدر بریگیڈیئر حیات صاحب سے ملیں اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا جس پر انھوں نے ان کی معاونت کی اور یوں 80 کی دہائی میں مکتب بصارت قائم کیا۔ آج یہ ادارہ آزاد کشمیر میں نابینا افراد کی تعلیم و تربیت کا ایک مثالی ادارہ ہے اور پی ڈی ایف کے ساتھ اس کی مثالی یکجہتی ہے جہاں سے نسیم فاطمہ صاحبہ نے اپنی ایک نئی زندگی کا سفر شروع کیا تھا۔

یہ سب کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ان درخشندہ ستاروں کے وہ کارنامے ہیں جو کم وسائل اور مایوسیوں کے گرداب کے باوجود ان خاص لوگوں نے انجام دیے ہیں اور یہ تو اس کے ابھی چند اوراق ہی ہیں۔ رب العزت سے دعا ہے کہ کامیابیوں کی اور داستانیں بھی رقم ہوں آمین۔