نام تھا ان کا غالباً عبدالرزاق، ان کا ایک پیغام ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے جو انھوں نے مجھے 13مارچ 1914میں بھیجا تھا۔ یہ صاحب ایک اچھے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ تھے۔ سندھی سپیکینگ تھے آگے کچھ ذہن میں نہیں رہا، البتہ ان کی خوبصورت اور شائستہ اردو کے ساتھ کتب بینی کا شوق اور جستجو خوب یاد ہے۔
وہ وہیں کہیں ناظم آباد کے علاقے میں رہائش پذیر تھے جو خالصتاً اردو بولنے والوں کا علاقہ کہلایا جاتا تھا لیکن اب وہاں پر ہر زبان اور فرقے کے لوگ بستے ہیں۔ اسی علاقے میں بڑے ڈاک خانے کے ساتھ علامہ شبیر احمد عثمانی کے نام سے ایک لائبریری ہے جہاں اب پرانی کتابیں پڑھنے والوں کی دید کو ترستی ہیں، کسی زمانے میں یہاں پڑھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ہر حال میں لوگ اخبار میں اشتہارات پڑھنے اور موٹی موٹی سرخیوں پر نظر مارنے یا کسی کے انتظار میں رسائل واخبارات پڑھنے آتے ہیں۔
ذکر چل رہا تھا کتب بینی اور اس کے حالیہ اثرات کا۔ عبدالرزاق صاحب بظاہر ریٹائرڈ نظر نہیں آتے تھے۔ ان کی کتابوں سے محبت کا چسکا انھیں لائبریری کھینچ لاتا تھا۔ اب بھی یاد ہے کہ انھیں گلہ تھا کہ یہاں کتابوں کی کمی ہے وہی پرانی کتابیں ہیں جنھیں پہلے بھی پڑھ چکے ہیں۔ ہمیں کچھ حیرت بھی ہوئی کہ سندھی زبان بولنے والے اردوکی کتابیں بھی اس قدر شوق سے پڑھتے ہیں تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ جنھیں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے وہ سب پڑھتے ہیں، اس پر ان کا پیغام کچھ یوں تھا۔
"بیٹی کتابیں انسان کی بہترین دوست ہوتی ہیں ، ہمیں جو معلوم نہیں اس سے آگاہی کتابیں دیتی ہیں۔ " (عبدالرزاق)
ان کی حضور اکرمؐ سے محبت اور سندھ کی سرزمین سے ظہور اسلام کے حوالے سے بھی کچھ پیغامات تھے جس میں ایک پیغام کچھ یوں تھا، "بیٹی آنحضرتؐ کے معجزہ شق القمرکو کملتے کے مہاراجہ نے دیکھا تھا اسے نجومیوں نے بتایا شاہ عجم و عرب کا ظہور ہوچکا ہے تو وہ اپنی سلطنت بیٹے کو سونپ کر عازم سفر مکہ ہوا تاکہ حضورؐ کے شرف باریابی سے معمور ہو، لیکن بدنصیب کہہ لیجیے کہ عمان کے مقام پر دار فانی سے کوچ کرگیا لیکن کملتے کے لوگوں میں اسلام کے لیے نرم گوشہ اس وقت پیدا ہوچکا تھا۔ "
ان کا کہنا تھا کہ کتابیں معلومات کا خزانہ ہیں اور اس کتب خانے کے متعلق جب ان سے ان کی رائے پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں اکثر آتے ہیں لیکن پرانی کتابیں ہی بار بار ایشو کرانا پڑتی ہیں، پوچھا گیا کہ کیا کتب خانوں کو فنڈز ملتے ہیں نئی کتابوں کی خریداری کے لیے؟ تو بولے شاید ملتے ہوں۔ لیکن یہاں کتابوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ نہیں، شاید لوگ فلمی اورگرما گرم خبروں سے لبریز رسائل پڑھنے پر توجہ دیتے ہیں تو ویسا ہی مزاج کتب خانوں کا بھی ہوگیا ہے۔
ماضی میں اسلام کے مختلف ادوار میں کتابوں پر بہت توجہ دی گئی غالباً اس زمانے میں لوگوں میں پڑھنے کا رجحان بہت زیادہ تھا یہی وہ دور تھا جب مسلمانوں نے اپنے علم کی بدولت زمین کی ہیئت سے لے کر کیمیائی لحاظ سے رنگوں کو حاصل کرنے تک کے تجربات کامیابی سے انجام دیے جنھیں ہم آج سائنٹیفک انداز سے پرکھتے اور دیکھتے ہیں یہ علم انھی موٹی موٹی کتابوں میں ان کے تجربات کا نچوڑ تھا، اب اس کو کوئی مانے یا نہ مانے پر حقیقت تو یہی ہے کہ کتاب بینی انسان میں یکسوئی اور اعتدال پیدا کرتی ہے۔
آج کے انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں جب کہ بجلی بھی خاصی مہنگی ہوگئی ہے، کمپیوٹر کی اسکرین ہو یا سیل فون کی ننھی جادوئی کھڑکی انسانی آنکھیں ماحول کے مقابلے میں ذرا تیز روشنی میں اس تمام علم کو کھنگالنے کی کوششیں کرتی ہیں جو کہنے کو بہت لیکن پھر بھی ناکافی ہے دوسری بات اسکرین کی برقیاتی شعاعیں آنکھوں اور انسانی دماغ کو بھی متاثرکرتی ہیں۔
ہمارے زمانے میں اسکولوں اورکالجز میں لائبریریز ہوا کرتی تھیں ہم جوکتابوں کہانیوں کے بڑے شوقین تھے اس پیریڈ کا بڑی بے چینی سے انتظارکرتے اور لائبریری کے پرسکون ٹھنڈے اور سحر انگیز ماحول میں نت نئی کتابیں دیکھتے، ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی محدود کتب ہوں اور ہمیں زیادہ محسوس ہوتی ہوں، لیکن آج کل کے اس بھاگتے دوڑتے ماحول میں بچے کتابیں پڑھنے سے دوڑ لگاتے ہیں یہ دوڑ تو ہمارے زمانے میں بھی دیکھی جاتی تھی پر اپنا اپنا شوق۔
"ہم فیس تو کم کرسکتے ہیں لیکن نوٹس کی قیمت میں کمی نہیں ہوسکتی کیونکہ آج کل کاغذ اس قدر مہنگا ہے پرنٹنگ نہ پوچھیے جب ہمیں آگے سے ہی اتنا مہنگا ملے گا تو ہم کیسے بچوں کو سستا فراہم کرسکتے ہیں، آپ ہماری مجبوری سمجھیے۔ "
یہ کہنا تھا ایک بڑے نامی گرامی کوچنگ سینٹرز کے منتظمین کا۔ ایسے دور میں اگر کوئی آپ سے کہے کہ کہیں سے مفت کتابیں دستیاب ہو رہی ہیں اور وہ بھی خاصی مہنگی اور نایاب جن میں علم کے خزانے بھرے پڑے ہیں تو یقینا آپ کو حیرت ہوگی، لیکن آج کل کے اس دور میں ایسا ہوا ہے جب دس محرم کو کراچی کے مرکزی جلوس میں لوگوں نے ایک ایسی سبیل دیکھی جہاں نہ تو شربت مل رہا تھا اور نہ ہی کباب و نان بلکہ کتابیں اور کتابیں ہی تھیں جو بنا کسی مول کے دستیاب تھیں۔ اس سبیل میں مذہب سے لے کر ادب و فن سائنس اور تاریخ کے علاوہ ایسی کتب بھی دستیاب تھیں جو یقینا قیمت کے لحاظ سے خاصی مہنگی ہیں۔
یہ سبیل اپنی نوعیت کی تیسری سبیل ہے جو کراچی میں لگائی گئی۔ اس سے پہلے بھی یہ کامیابی سے لوگوں میں مقبول رہی، بلکہ حالیہ سبیل میں ایک بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی کے استاد یوسف علی محمود نے بھی اپنی کتاب Reflections For Managers کے ساٹھ نسخے ہدیہ کیے صرف یہی نہیں بلکہ ایک نجی اسکول کے استاد نے بھی بہتر قیمتی کتابیں عطیہ کیں۔
اس سبیل کا اہتمام کرنے والے رضا اصفہانی بھی کتابوں کے شوقین ہیں انھیں طالب علمی کے زمانے سے ہی معلومات عامہ کی کتابوں کو پڑھنے کا جنون تھا اور اسی وجہ سے وہ ملک میں اور بیرون ملک مختلف کوئز پروگراموں میں کامیابی سے شرکت کرچکے ہیں۔ آج کل کے بچوں اور نوجوانوں کو کتابوں سے دور ہوتا دیکھ کر کتابوں کی مہنگی قیمتوں سے پریشان ہوکر اگر آپ پریشان ہیں تو اپنے بچوں کو ایسی انوکھی سبیلوں سے ضرور متعارف کروائیے۔ دعا ہے کہ ایسے مفت کے بک اسٹالز عام ہوں اور ہماری نسلیں اس سے مستفید ہوں کہ ہمارے پاس ترقی حاصل کرنے کا راستہ علم ہی ہے۔