وہ ادویات جن کی مدت استعمال گزرچکی ہو کیا استعمال کی جاسکتی ہیں؟ کیا ایسی ادویات کو استعمال کرنے سے فائدہ ہو سکتا ہے؟ یا نقصان ہو سکتا ہے؟
ادویات کے حوالے سے یہ باتیں بہت اہم ہیں چاہے وہ مایع حالت میں ہوں یا کیپسولز اور گولیوں کی صورت میں ہوں تمام پر ان کی تاریخ منسوخی تحریر ہوتی ہے اس کے بعد مریض ایسی دوائیوں کو استعمال نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں شفایابی کے امکانات خاصے کم ہوتے ہیں۔
ہم ہر سال ہزاروں روپے کی دوائیاں پھینکتے ہیں جن کی ایکسپائری ڈیٹ ختم ہو جاتی ہے اب دوائی خریدنے والوں کو کیا پتا کہ یہ دوائی صحیح ہے یا غلط۔ آج کل لوگ پھر بھی سمجھدار ہیں کہ مکسچر وغیرہ خریدتے ہوئے خود ہی ایکسپائری ڈیٹ دیکھ لیتے ہیں لیکن خاص طور پر کیپسولز اور ٹیبلٹس میں مسائل ہو سکتے ہیں ایک اچھے اور ایماندار میڈیسن فروخت کرنے والے کا یہ فرض ہے کہ وہ دوائی خریدنے والوں کو گاہک نہیں مریض سمجھے۔ عام دکانداروں میں اور میڈیکل اسٹورز والوں میں یہ بہت بڑا فرق ہے۔
کیا ایکسپائری ڈیٹ والی ادویات بیچنا جرم ہے؟
سیدھی سی بات ہے کہ ایسی دوائیاں جن کی تاریخ استعمال یعنی وہ درمیانی عرصہ جب اس دوائی کو بنایا گیا ہو اور اس دوائی کی کمپنی کے مطابق ایک خاص وقت مثلاً دو سال بعد یا تین سال بعد کچھ ادویات میں صرف سال بھر کا ہی وقفہ ہوتا ہے۔
اس کے بعد اس دوا میں شامل کیمیکلز کے ری ایکٹ کرنے کا یعنی فائدے کے بجائے نقصان پہنچانے کا اندیشہ ہو سکتا ہے یا وہ فائدہ ہی نہ پہنچائے یہ بھی ہو سکتا ہے دونوں ہی صورتوں میں مریض کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اخلاقی طور پر تو بات میڈیکل اسٹور سے ہی شروع ہوتی ہے کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسی دوائیوں کو تلف کردیں یا کمپنی کو واپس بھیج دیں، ایکسپائری ڈیٹ لکھ کرکمپنی نے تو اپنا فرض پورا کردیا کہ اس تاریخ کے بعد اگر آپ نے یعنی مریض نے یہ دوائیں استعمال کی تو ہم اس کے ذمے دار نہیں۔ تو خدانخواستہ اگر کچھ ہو جائے تو ذمے دار کون ہوا؟ ظاہر ہے کہ دوائی فروخت کرنے والا۔ کیا اس بات پر ریسرچ کی گئی ہے کہ ایکسپائری ڈیٹ دوائیوں کا استعمال نقصان دہ نہیں ہو سکتا؟
ہو سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تو ہر بات پر ریسرچ کی جاتی ہے البتہ پاکستان میں تو ایسا بھی ہوا ہے کہ وہ دوائیاں جو بیرونی ممالک میں ممنوع قرار دی گئی ہیں وہ بھی چل رہی تھیں اور بہت بعد میں جا کر اسے بین کیا گیا، ہمارے ملک کا موسم کچھ زیادہ گرم ہے لہٰذا یہاں اگر ایکسپائری ڈیٹ اگر ایک ہفتہ یا دس پندرہ دن کی باقی ہے تو اسے بھی ایکسپائر ہی سمجھنا چاہیے۔ کچھ نہیں پتا کہ اس دوا کو کس ماحول میں رکھا گیا ہے آیا کہ ٹھنڈی اور محفوظ جگہ پر یا کچن وغیرہ یا ایسی جگہ جہاں دھوپ آتی ہو ایسی جگہ ادویات کے رکھنے کے لیے بہت خطرناک ہیں۔
یہ بھی تو ہوتا ہے کہ بہت سی دوائیوں کی کمپنیاں جو سرکاری اسپتالوں اور دوا خانوں کو دیتی ہیں ظاہر ہے کہ اس پر منافع کی شرح کم ہوتی ہے یا مفت بھی ہوں ان ادویات کو میڈیکل اسٹور والے خرید لیتے ہیں۔ بہت سے سرکاری اسپتالوں میں اور چھوٹی ڈسپنسریوں میں ادویات مریضوں کو مفت دی جاتی ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ مہینے کے شروع شروع میں تو مریضوں کو مفت دوائیاں مل جاتی ہیں ورنہ اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ یہ دوائیاں باہر سے خرید لیں جب کہ سرکاری اسپتالوں کے مقابلے میں وہ اسپتال یا ڈسپنسریز جو بہت سے مخیر حضرات یا ادارے چلا رہے ہیں وہاں سے پھر بھی ادویات پورے مہینے سارا سال ملتی رہتی ہیں۔ اس لیے وہاں چیکنگ کا ایک سسٹم ہے، جب کہ سرکاری اسپتالوں میں مریض کو خیراتی سمجھا جاتا ہے اور یہی حال دوائیوں کی فراہمی کا ہوتا ہے۔
لیکن دوائیوں کی فروخت کے بارے میں کیا یہ درست ہے کہ سرکاری اسپتالوں سے میڈیکل اسٹورز والے خرید لیتے ہیں۔ کیا یہ مافیا سرگرم نہیں ہے؟
سرگرم ہے، بالکل سرگرم ہے ہر جگہ کرپشن تو ہے ناں۔ چند گندی مچھلیاں ہیں جنھوں نے تمام لوگوں کو بدنام کردیا ہے ایسا ہوتا ہے کہ دوائیاں صرف سرکاری اسپتالوں سے ہی نہیں بلکہ دوسرے اداروں سے بھی خریدی جاتی ہیں مثلاً اگر ایک ادارے کو ایک دوائی کمپنی 19 فیصد ڈسکاؤنٹ پر دوائی دے رہی ہے تو ادارے سے میڈیکل اسٹور والے یا بے ضمیر لوگ وہ دوائیاں خرید لیتے ہیں کیونکہ وہ کمپنی ان لوگوں کو بہت کم فیصد ڈسکاؤنٹ پر دوائی دے رہی ہے۔
اس طرح نقصان کس کا ہوا؟ نقصان ان مریضوں کا ہوا کہ جنھیں وہ سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ مفت دوائیاں دیتا ہے اور فائدہ کس کا ہوا چوری چھپے ادویات فروخت کرنے والوں کا جو دو تین پرسنٹ فائدے پر دوائیاں بیچ دیتے ہیں اور خریدنے والوں کا جو چار پانچ پرسنٹ فائدے میں خریدتے ہیں کیونکہ براہ راست دوائی کی کمپنی سے وہ دوائیاں خریدتے ہیں تو ان کو مہنگی پڑیں گی اور یوں کہہ لیں کہ ان کے خیال میں کم منافع ملے گا جب کہ میرا یہ ماننا ہے کہ منافع ضرورت ملتا ہے لیکن لوگوں کو چور بازاری کرکے مزہ بھی ملتا ہے جب کہ حق دار مریض محروم رہتے ہیں ویسے ایک بات اور واضح کردوں کہ خدا کا شکر ہے کہ کراچی میں میڈیسن کے حوالے سے خاص کر جعلی ادویات اور ایکسپائر ادویات کے حوالے سے اتنے مسائل نہیں ہیں البتہ اندرون سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بڑے بڑے فراڈ ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں کہ بے چارے مریض کو اگر کتے کے کاٹے پر انجکشن دیے گئے تو وہ بھی بے اثر رہے، اسی طرح زہریلے جانوروں کے کاٹنے کے لیے اور بہت سے ایسے امراض مثلاً دل ہے یا انسولین وغیرہ جو اگر فریج کے بغیر رکھی جائے تو نقصان دہ ہے ایسی ادویات بھی جعلی یا ایکسپائر ملیں، اخبارات اٹھا کر پڑھ لیں آئے دن ایسی خبریں ہوتی ہیں۔
نسبتاً کم آبادی والے اس بڑے میڈیکل اسٹور کے حالات یقینا اندرون شہر زیادہ گنجان آبادی والی دوائیوں کی مارکیٹ سے قدرے مختلف ہیں جہاں سے شہر بھر اور شہر سے باہر کے لوگ میڈیسن خریدتے ہیں، مہنگائی کے اس دور میں جب روزمرہ کے استعمال کی اشیا کے ساتھ ادویات بھی قدرے مہنگی ہوگئی ہیں ایسے میں اگر ضرورت مند کو جعلی یا ایکسپائر ڈیٹ کی دوا کا عین اس وقت پتا چلے جب شدت سے استعمال کی ضرورت ہو تو اس کا کیا حال ہوگا لیکن یہ بات بے ضمیر لوگوں کی سمجھ میں کم ہی آتی ہے۔
1979 میں امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن نے دوائیوں کی ایکسپائری تاریخوں کے اجرا کو شروع کیا، آج بھی دوائیوں کی ایکسپائری تاریخ بہت نازک مسئلہ ہے کہ آیا وہ مریض کے استعمال کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ لیکن حال ہی میں ایک خبر نے اذیت سے دوچار کیا جس میں سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد میں کروڑوں روپے کی ادویات کے ضایع ہونے کے انکشاف کا لکھا ہے، کروڑوں روپے کی زائد المعیاد (ایکسپائری) ادویات کو ٹھکانے لگایا گیا تھا۔
جن میں اینٹی بائیوٹک ادویات، انجکشن، سیرپ اور دیگر سامان شامل تھا، بے جا کمیشن کے حصول کے لیے شارٹ ایکسپائری ادویات خریدی گئیں جو استعمال سے پہلے ہی زائد المعیاد ہوگئی تھیں جنھیں بوریوں میں بھر بھر کر کباڑیوں کو فروخت کیا گیا، یہ کس کے دور میں خریدی گئیں اورکیسے خریدی گئیں اس سے اب کیا ہو سکتا ہے لیکن نقصان حقدار مریضوں کا اور سرکاری خزانے کا ہوا۔ خدا ہم سب کو اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھانے کی توفیق دے۔ (آمین۔)