میں اسے کبھی ملا نہیں لیکن بہت پرانا جانتا ہوں، وہ سمارٹ ہے، ذہین ہے، تجربہ کار ہے، کسی کی پھوٹی کوڑی کا بھی روادار نہیں، قانونی مسائل چٹکی بجانے میں حل کردیتا ہے اسی لئے عرصہ دراز سے طاقت کے ایوان میں بار سوخ ہے، کسی کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاتا اس لئے آگے سے آگے ہی بڑھتا گیا۔
اہل تصوف میں یہ اصطلاح عام ہے کہ درویش کا رستہ قلت، علّت اور ذلت سے ہو کر گزرتا ہے۔ درویش کو زندگی میں مال و دولت کی قلت کا سامنا رہتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی علّت کا شکار ہوجاتا ہے جو اس کی ذات کو بےعیب نہیں رہنے دیتی اور وہ تکبر کا شکار نہیں ہوتا۔ یہ علّت یا کمزوری اسے اپنی اصلاح پر مجبور کرتی رہتی ہے، درویش کو اپنے کردہ یا ناکرہ گناہوں کی وجہ سے ذلت کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال سے وہ آج دوچار ہے جہاں اس میں بےپناہ خوبیاں ہیں وہاں ایک چھوٹی سی، معمولی سی، بال برابر خامی بھی ہے۔ ویسے تو کون شوقین نہیں ہوتا بس پکڑے جانے کی بات ہے جو پکڑا جائے وہ برا اور جو نہ پکڑا جائے وہ رنگین کہلاتا ہے۔ ستر بہتر کا ہوگیا ہے مگر اب بھی پچاس پچپن کا لگتا ہے، خواتین میں ہر دلعزیز ہے، وہ ہے بھی جانِ محفل۔ وگرنہ تو اکثر لوگ ساٹھ سال کے بعد سٹھیا کر بور اور سنجیدہ ہوجاتے ہیں مگر یہ اب بھی نوخیز و چنچل ادائوں اور مردانہ اشاروں کنایوں میں محفل لوٹ لیتا ہے۔ درویشوں میں کچھ نہ کچھ علّت تو ہوتی ہے وگرنہ اس کی تختی بالکل صاف ہے۔
زندگی کی اونچ نیچ کچھ ایسی رہی کہ اسے گپ بازی کی عادت پڑگئی۔ دل کا بہت اچھا اور صاف ہے مگر مذاق مذاق میں بڑی بڑی چھوڑ دینا اس کی عادتِ ثانیہ چکی ہے، بس ایسے ہی کسی لمحے میں دل کی باتیں اینکر سے کہہ ڈالیں۔ یہاں سچ کون برداشت کرتا ہے؟ ہر طرف آگ لگ گئی، بھانبڑ مچ گئے، ذاتی کردار زیر بحث آگیا حالانکہ درویش کی علّت کا درویشی پر ذرا بھی اثر نہیں پڑتا مگر یہ بےدردزمانہ ہے جو درویش کو ذلت سے دو چار کرکے خوش ہوتا ہے۔ بلھے شاہ نے درویشوں اور فقیروں کے لئے کہا تھا؎
چٹی چادر لاہ سٹ کڑیے، پہن فقیراں لوئی
چٹی چادر داغ لگیسی، لوئی داغ نہ کوئی
اہلِ تصوف سفید اور اجلی چادر پر داغ داغ لوئی کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔ سفید چادر پر داغ لگ جائے تو اسے چھپانا مشکل ہوتا ہے، اسی لئے درویش اپنی پارسائی کا دعویٰ نہیں کرتے، کبھی نہیں کہتے کہ وہ سفید اور اجلے کردار کے مالک ہیں۔ وہ اپنی علّتوں کے ساتھ لوگوں میں موجود رہتے ہیں، طعنے بھی سنتے رہتے ہیں اور اخلاق و کردار سے لوگوں کو قائل بھی کرتے رہتے ہیں۔ اس سے غلطی بس اسی نکتے پر ہوئی، سارے جہاں کے عیب نکالنے اور سب کو آگے لگانے کے بعد اپنی چادر کو سفید اور اجلا رکھنا ضروری ہوتا ہے یا پھر دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوئی اوڑھے داغوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں، ان داغوں کو علّت بنا کر اپنی شخصیت کو تکبر سے بچا لیں۔ بدقسمتی سے 70سال سے احتساب کا معاملہ اسی طرح ادھورا ہے، اس بار بھی یہ اسکینڈل احتساب کی لٹیا ڈبو دے گا۔ اس کی گپ بازی نے مروا دیا۔ یہ چپ رہتا تو کچھ بھی نہیں ہونا تھا، احتساب منطقی انجام تک پہنچانا چاہئے تھا مگر ایسا لگتا ہے اب اس احتساب کا پھلکا بھی اڑچکا ہے اور ہمارا احتسابی ماضی بھی کوئی ایسا تابناک نہیں۔ کبھی ایوب خانی ا یبڈو کے ذریعے احتساب ہوا تو کبھی انتقامی پوڈا اور پروڈا احتساب۔ حد تو یہ ہے کہ یہاں ضیاء الحقی انصاف سے مخالفوں کی گردنیں اڑا دی گئیں اور احتساب الرحمٰن کی چمتکاری سے مارشل لاء کا راستہ ہموار ہوا۔ جنرل امجد کا احتسابی دبائو بھی دیکھا، جنرل خالد مقبول کا ڈھیلا احتساب بھی ہمارے سامنے ہی ہوا اور تو ا ور جنرل شاہد کے احتساب اور اس کے تحریری اعترافات کے بھی ہم شاہد ہیں۔ اس بار ایسا لگتا تھا کہ سفید چادر پہننے والا سب داغداروں کو لٹکا دے گا مگر ان لوگوں کی تو اپنی چادر داغدار ہوگئی۔
سیاست ٹائمنگ سے کھیلنے کا نام ہے۔ احتساب کارڈ ویسے بھی جون جولائی تک ہی کھیلنا ممکن تھا اس دوران زرداری، شہباز شریف اور حمزہ کو جیل بھیجنے کی تیاری مکمل تھی مگر برا ہو علّت کا کہ اس نے بہت سے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ احتساب کو اب شدت سے چلانا اور تالیاں بجوانا مشکل ہوجائے گا۔ جون جولائی اب احتساب کے نہیں بلکہ بجٹ اور عوامی ردعمل کے مہینے ہوں گے، اگست ستمبر میں بڑا عسکری فیصلہ ہونا ہے جس کے بعد سے احتساب اور سیاست کے نئے رخ متعین ہوسکتے ہیں سو احتساب کا سنہری موقع ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ضائع ہوگیا ہے۔
یہ المیہ نیا نہیں ہے اور صرف اسی پر ہی موقوف نہیں، ہم سب ایسے ہی ہیں۔ ہمیں دوسروں کے عیب تو صاف نظر آتے ہیں مگر اپنی برائیاں بری نہیں لگتیں، کسی دوسرے پر الزام بھی لگے تو ہمیں سچ لگتا ہے اور اگر کوئی دوسرا ہمارے خلاف ثبوت بھی لے آئے تو ہمیں انتقام کا شائبہ ہوتا ہے، کوئی ٹیکس چوری کرے تو چور، ہم ٹیکس کم دیں تو ہم قانونی رستہ نکالنے کے ماہر۔ کوئی مخالف باہر پیسے بھجوائے تو منی لانڈرنگ، ہم بھیجیں تو ہماری کمائی حق حلال کی، ہم جو چاہیں کریں۔ مخالف لوٹے شامل کرے تو برا، ہم شامل کریں تو اسے سیاسی ضرورت قرار دیں۔ ہم سب ایسے ہی ہیں اسی لئے دعوے باز، گپ باز اور خود کو دوسروں سے زیادہ سچا، ایماندار اور برتر ثابت کرنے والے اسی دنیا میں ذلالت کا ذائقہ چکھ کر جاتے ہیں اور زیادہ خاموش رہنے والے بعض اوقات اس عذاب سے بچ نکلتے ہیں۔
ہم سب کو وہ بہت پسند ہے، شوقین ہے تو کیا ہوا وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے۔ تھوڑا بہت دال میں کالا تو ہر ایک میں ہوتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی اصول ہے کہ دوسروں میں کیڑے نکالنے والا خود داغ سے پاک ہونا چاہئے۔ احتساب کرنے والا دوسروں کو چور، ڈاکو اور بے ایمان کہے مگر خود بھی بداخلاقی کا مرتکب ہوتو ایسے میں اس کی بات میں وزن نہیں رہتا۔ کوئی دوسرا مہذب ملک ہوتا تو وہ خود ہی استعفیٰ دے کر گھر جا چکا ہوتامگر چونکہ ہم سب ایسے ہی ہیں، اس لئے ہم یہی کام مجبوراً کریں گے اور کریں گے بھی کافی دیر سے جب نقصان کافی زیادہ ہوچکا ہوگا۔ باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی کے مصداق ہم سب باتیں تو بڑی بڑی بناتے ہیں مگر بات جب عمل پر آتی ہے تو ہماری کروڑوں کی باتیں پکوڑوں کی دکان کی طرح عمل سے خالی ہوتی ہیں۔ ہم باتوں کے بادشاہ اور عمل کے بھگوڑے ہیں، ہم شوقین کے گلے ملنے کی جو مرضی خوش کن وضاحتیں کرلیں، اس واقعہ کو بین الاقوامی گروہ کی بلیک میلنگ قرار دے دیں یا احتسابی عمل کو روکنے کی سازش قرار دیں۔ واقعہ بہرحال ہوچکا اور اس کے اثرات سے بچنا مشکل ہوگا، جتنی دیر ہوگی اتنا ہی یہ معاملہ پیچیدہ ہوتا جائے گا۔
ہمارے جہاں بہت سے مسائل ہیں وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسائل حل نہیں کرتے، کوئی راستہ نہیں نکالتے۔ ساس بہو کامعاملہ ہو یا کرپشن کا انسداد، کبھی کوئی متفقہ راہِ عمل نظر نہیں آتی، ہر بار وقتی حل تلاش کیا جاتا ہے مغربی معاشروں نے ان تمام معاملات کا غلط یا صحیح دیرپا حل نکال رکھا ہے اور وہ فوراً اسے حل کرلیتے ہیں۔ سیدھا سادہ معاملہ ہے اسے فوراً حل کریں اور آگے چلیں۔