چند دن پہلے ہی (8جولائی) مقبوضہ کشمیر میں مشہور حریت پسند نوجوان، برہان مظفر وانی، کا چوتھا یومِ شہادت پورے جوش و خروش سے منایا گیا ہے۔ شہید برہان وانی کی اس چوتھی برسی پر، گزشتہ برسوں کی طرح، پورا مقبوضہ کشمیر منجمد رہا، حالانکہ اس بار بھی کشمیر پر قابض اور غاصب بھارتی فوجوں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ نے اپنی سی پوری کوشش کی کہ مقبوضہ کشمیر میں زندگی کا پہیہ معمول کے مطابق حرکت میں آتا نظر آئے۔ بندوق اور ڈنڈے کے جبر کے باوجود مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ یہ دراصل بھارت کی ایک اور نفسیاتی شکست ہے۔
برہان وانی کی عظیم اور پُر شکوہ شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں "حزب المجاہدین" کے ایک اور نوجوان آزادی پسند مجاہد رہنما، ریاض نائیکو، کی شہادت (16مئی2020) کے بعد مقبوضہ کشمیر میں تحریکِ آزادی کو ایک نیا ولولہ ملا ہے۔ ریاض نائیکو کی شہادت اگرچہ کشمیر میں تحریکِ آزادی کے لیے ایک بڑا جانی و روحانی نقصان ہے لیکن ریاض نائیکو نے بھارتی قابض فوجوں کے ہاتھوں شہید ہو کر بھارتی فورسز کو یہ پیغام ضرور دیا ہے کہ برہان وانی کی شہادت کا راستہ مسدود کیا جا سکا ہے نہ اس میں کوئی بدلاؤ آیا ہے۔
بھارتی قابض فوجوں نے پچھلے سال 5اگست کے ظالمانہ اور غاصبانہ فیصلے کے بعد اگرچہ کشمیر میں جبر کا شکنجہ مزید کَس دیا ہے لیکن ہمارا سلام ہے مقبوضہ کشمیر کے سبھی خواتین و حضرات، نوجوانوں اور بچوں کو، جنہوں نے جبر کی اس آہنی دیوار کے سامنے کامل سرنڈر کرنے سے کامل انکار کر دیا ہے۔ غاصب قوتیں بھی کشمیریوں کے اس عزم اور عزیمت کے سامنے انگشت بدنداں ہیں۔
شہید برہان وانی کی چوتھی برسی اور ریاض نائیکو کی تازہ شہادت کی خوشبو کے ان ایام میں ہم سب آج "شہدائے کشمیر" منا رہے ہیں۔ ہر سال13جولائی کو کشمیریوں کی لازوال شہادتوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، پاکستان اور دُنیا بھر میں پھیلے کشمیری اپنے شہیدوں کو خراجِ عقیدت و تحسین پیش کرتے ہیں۔ تیرہ جولائی کا یہ دن درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور شہادتوں کے چراغ پوری طاقت اور توانائی سے روشن کرنے کا ایک شاندار دن ہے۔ 13جولائی کا "یومِ شہدائے کشمیر" بھارتیوں کے سینے میں خنجر بن کر پیوست ہو جاتا ہے۔
یہ دن ہمیں کشمیریوں کی اُس بے نظیر اور عظیم المرتبت مساعی کی بھی ازسرِ نَو یاددلاتا ہے جب غلامی اور جبر کی دُہری زنجیروں میں جکڑے نہتے کشمیریوں نے آزادی اور حریت کا باقاعدہ راستہ اختیار کیا۔ 89 سال قبل (جب ایک طرف تو انگریز سامراج نے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا اور دوسری طرف کشمیریوں کو مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی گرفت میں جکڑ رکھا تھا) تیرہ جولائی کا سانحہ پیش آیا۔ واقعہ تو معمولی ساتھا۔ ایک کشمیری نوجوان، عبدالقدیر، کو ہندو مہاراجہ کے سپاہیوں نے ایک معمولی سی تقریر کی بنیاد پر حراست میں لے رکھا تھا۔
الزام عائد کیا گیا کہ عبدالقدیر نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف تقریر کی ہے اور لوگوں کو اِس امر پر اُبھارا ہے کہ سب کشمیری مہاراجہ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیں۔ عبدالقدیر کے خلاف سرینگر میں مقدمہ چلایا جارہا تھا۔ مسلمانانِ کشمیر کا مطالبہ تھا کہ ملزم بے گناہ ہے، اس لیے اُسے فوری رہا کیا جائے۔
اور اگر رہا کرنا فوری ممکن نہیں ہے تو کشمیریوں کو مقدمے کی کارروائی سُننے اور دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ اجازت نہ ملنے کی صورت میں احتجاج ہُوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں کے ایک جائز مطالبے کو روکنے کے لیے ڈوگرہ ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کی ظالم پولیس اورفوج نے13جولائی 1931ء کو احتجاجی و نہتے کشمیریوں پر گولی چلا دی۔ پلک جھپکتے میں 22بے گناہ کشمیری شہید ہو گئے۔ تاریخ میں اِن جی دار اور اولو العزم شہید کشمیریوں کے نام سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ یہ اسمائے گرامی آج بھی لَو دے رہے ہیں۔ اُنہی کے ولولوں اور نقوش کی یاد میں آج بھی مقبوضہ کشمیر میں قابض اور غاصب فوجوں کے خلاف تحریکِ آزادی و حریت پوری آن بان اور شان سے جاری ہے۔
یہ اُن شہیدوں کے پاک خون کی برکت ہے کہ 89سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہم اُن کی یاد میں شمعیں روشن کرتے ہُوئے اُنہیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ ہر سال جب بھی تیرہ جولائی کادن آتا ہے، ایل او سی کے آر پار یومِ شہدا پورے جوش وجذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ کشمیر کو بھارتیوں کی گرفت سے نجات دلانے کے لیے تجدیدِ عہد کیا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بروئے کار "آل پارٹیز حریت کانفرنس"(APHC) کے سربراہ، سید علی گیلانی، کا استعفیٰ حیرت انگیز نہیں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے یہ 92سالہ نیک نام بزرگ، نہایت دیانتدار اور کمٹڈ حریت پسند رہنما صحیح معنوں میں کشمیریوں کی بھارتی جبر سے آزادی کا منہ بولتا سمبل ہیں۔ بھارت نے اُنہیں اور اُن کے خاندان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
یہ مردِ جری مگر پچھلے کئی عشروں سے ایک مضبوط چٹان کی طرح انڈین اسٹیبلشمنٹ کے جملہ ہتھکنڈوں کے سامنے ڈٹا رہا ہے۔ وہ نہایت محنت اور حکمت کے ساتھ حریت کے سارے ساتھی رہنماؤں کو اپنے جلَو میں لے کر آگے بڑھتے رہے ہیں۔
پچھلے سال 5اگست کے بھارتی ظالمانہ اقدام کے بعد ( جس میں بھارت نے باقاعدہ قانون سازی کرتے ہُوئے مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں موجود خصوصی حیثیت ختم کر ڈالی) پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کی قیادت کی طرف سے مبینہ طور پر سید علی گیلانی صاحب کی توقعات کو بجا طور پر دھچکا لگا ہے۔ گیلانی صاحب بیمار بھی ہیں اور خاصے ضعیف بھی۔ اب وہ ان دھچکوں کو مزید سہنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اُن کا دل شکستہ ہے۔ وہ اپنے دامن کو آلودہ کیے بغیر اس دُنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں۔
اُن کے اعصاب پر خاصا دباؤ تھا ؛ چنانچہ اُن کا حریت کانفرنس سے استعفیٰ بھی سامنے آگیا ہے۔ اس استعفے پر بھارت کی بانچھیں کھل رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا نہایت بے شرمی اور بے حیائی سے سید علی گیلانی کے مذکورہ استعفے کی اپنی من پسند تشریحات کررہا ہے۔ مثال کے طور پر 7جولائی 2020کو "ٹائمز آف انڈیا" میں شائع ہونے والا دل آزار مضمون۔ آج تیرہ جولائی کا یومِ شہادت مناتے ہُوئے ہم سید علی گیلانی صاحب کے استعفے پر افسردہ اور دلگرفتہ ہیں۔