٭گزشتہ روز حضرت علیؓ کے یوم ولادت پر میں نے اُن کے بہت سے ایسے اقوال پڑھے جو اِس سے پہلے میں نے نہیں پڑھے تھے، اُن میں سے چند اقوال زریں میں اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں، اِس نیت اور سوچ کے ساتھ اگر اِن اقوال زریں پر ہم عمل کرلیں ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنورسکتی ہیں، .... آپؓ نے فرمایا ....
٭فتنہ وفساد میں اِس طرح رہو جس طرح اُونٹ کا وہ بچہ جس نے اپنی عمر کے دوسال ختم کئے ہوں کہ نہ تو اِس کی پیٹھ پر سواری کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اِس کے تھنوں سے دودھ دوہا جاسکتا ہے۔
٭جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اُس نے اپنے آپ کو سبک کیا اور جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہوگیا اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا اُس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کرلیا!
٭بخل ننگ وعار ہے اور بزدلی نقص وعیب ہے اور غربت مرد زیرک ودانا کی زبان کو دلائل کی قوت دیکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے اور مفلسی اپنے شہر میں رہ کر بھی غریب الوطن ہونا ہے اورعجز ودرماندگی مصیبت ہے اور صبر شکیبائی شجاعت ہے اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے اور پرہیزگاری ایک بڑی سپہ ہے!
٭تسلیم ورضا بہترین مصاحب اور عِلم شریف ترین میراث ہے اور علمی و عملی اوصاف خلعت ہیں اور فکر صاف شفاف آئینہ ہے!
٭عقلمند کا سینہ اُس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے اور کشادہ روئی محبت ودوستی کا پھندہ ہے اور تحمل وبرد باری عیبوں کا مدفن ہے، صلح صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
٭جو شخص اپنے آپ کو بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے اور صدقہ کامیاب دور ہے، اور دنیا میں بندوں کے جواعمال ہیں وہ آخرت میں اُن کے سامنے ہوں گے۔
٭انسان تعجب کے قابل ہے کہ وہ چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے اور ہڈی سے سنتا ہے اور ایک سوراخ سے سانس لیتا ہے!
٭جب دنیا اپنی نعمتوں کو لے کر کسی کی طرف بڑھتی ہے تو اُس کی خوبیاں بھی اُسے عاریت دے دیتی ہیں اور جب اِس سے رُخ موڑ لیتی ہیں تو خود اِس کی خوبیاں بھی اِس سے چھین لیتی ہے۔
٭لوگوں سے اِس طریقے سے مِلو کہ اگر تم مرجاؤ تو وہ تم پر روئیں اور زندہ رہو تو تمہارے مشتاق ہوں۔
٭دشمن پر قابو پاؤ تو اِس قابو پانے کا شکرانہ اُسے معاف کردینا قرار دو!
٭جِسے قریبی چھوڑ دیتے ہیں اُسے بیگانے مِل جاتے ہیں!
٭جب تمہیں تھوڑی سی نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے اُنہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگانہ دو!
٭ہر فتنہ میں پڑجانے والا قابل عتاب نہیں ہوتا!
٭سب معاملے تقدیر کے آگے سرنگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجے میں موت ہوجاتی ہے!
٭جسے اُس کے اعمال پیچھے ہٹادیں اُسے حسب ونسب آگے نہیں بڑھا سکتا!
٭بامروت لوگوں کی لغزشوں سے درگزر کیا کرو کیونکہ اِن میں سے جو بھی لغزش کھا کر گرتا ہے تو اللہ اُس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اُوپر اُٹھا لیتا ہے!
٭مضطرب کی داد فریاد سننا اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلانا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے!
٭ڈرو، ڈرو.... اِس لیے کہ بخدا اُس نے اِس حدتک تمہاری پردہ پوشی کی ہے کہ گویا تمہیں بخش دیا ہے!
٭بہترین دولت مندی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کردو!
٭جس نے طویل طویل اُمیدیں باندھیں گویا اُس نے اپنے اعمال بگاڑ لیے!
٭وہ گناہ جِس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اُس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنادے۔
٭انسان کی جتنی ہمت ہو اُتنی ہی اُس کی قدروقیمت ہے اور جتنی مروت اور جواں مردی ہوگی اُتنی ہی راست گوئی ہوگی اُتنی ہی شجاعت ہوگی اور جتنی غیرت ہوگی اُتنی پاک دامنی ہوگی۔
٭کامیابی دُور اندیشی سے وابستہ ہے اور دوراندیشی فکرو تدبر کو کام میں لانے سے اورتدبر بھیدوں کو چُھپاکررکھنے میں ہے!
٭معاف کرنا سب سے زیادہ اُسے زیب دیتا ہے جو سزا دینے پر قادر ہو!
٭عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں، ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورے سے زیادہ کوئی چیز معین ومددگار نہیں۔
٭صبردوطرح کا ہوتا ہے، ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔
٭زبان ایک ایسا درندہ ہے اُسے اگر کُھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ پھاڑ کھائے!
٭جب تم پر سلام کیا جائے تو اُسے اچھے طریقے سے جواب دو اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اُسے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو اُس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے کی ہی ہوگی!
٭دنیا والے ایسے سواروں کی مانند ہیں جو سورہے ہیں اور سفر جاری ہے!
٭دوستوں کو کھودینا غریب الوطنی ہے!
٭جب عقل بڑھتی ہے تو باتیں کم ہوجاتی ہیں!
٭انسان کی ہرسانس اصل میں ایک قدم ہے جو اُسے موت کی طرف بڑھا رہا ہے!
٭جب کِسی کام میں اچھے بُرے کی پہچان نہ رہے تو آغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے!
٭حکمت مومن کی ہی گمشدہ چیز ہے اِسے حاصل کرو اگرچہ منافق سے لینا پڑے!
٭بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت سے زیادہ پسند ہے!
٭حیرت ہے اُس شخص پر جو توبہ کی گنجائش کے ہوتے ہوئے مایوس ہوجائے!
٭وہ عِلم بہت بے قدروقیمت ہے جو زبان تک رہ جائے اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضاءوجوارح سے نمودار ہو!
٭نیکی یہ نہیں کہ تمہارے مال و اولاد میں فراوانی ہوجائے بلکہ رحمت یہ ہے تمہارا علم زیادہ اور حِلم بڑا ہوجائے اور تم اپنے پروردگار کی عبادت پر ناز کرسکو۔ اگر اچھا کام کرو تو اللہ کا شکربجا لاؤ اور کسی بُرائی کا ارتکاب کرو تو توبہ کرو۔ دنیا میں صرف دولوگوں کے لیے رحمت ہے ایک وہ جو گناہ کرے تو توبہ سے اُس کی تلافی کرے اور دوسرا وہ جو نیک کاموں میں تیز ہوجائے!
٭جب کوئی حدیث سنو تو اُسے عقل کے معیار پر پرکھ لو، صرف نقل الفاظ پر بس نہ کرو کیونکہ علم کے نقل کرنے والے تو بہت ہیں اور اِس میں غور کرنے والے کم ہیں!
٭جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اُسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے آپ کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت وکردار سے تعلیم دینا چاہیے اور جو اپنے نفس کی تعلیم وتادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے!
٭صبر کی دوصورتیں ہیں جو ناپسند ہو اُسے برداشت کرنا اور جو پسند ہواُس کا انتظار کرنا۔
٭سکون حاصل کرنے کی فکر مت کرو، سکون دینے کی فکرکرو، تو سکون خود ہی مل جائے گا!
٭انسان موت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جہنم سے نہیں حالانکہ کوشش کرنے سے انسان جہنم سے بچ سکتا ہے موت سے نہیں!