افغانستان کئی صدیوں سے جنگ و جدل کا شکار ہے۔ ممتاز روسی دانشور لطپ لنسکی نے سابقہ سوویت یونین اور افغانستان کے تعلقات پر متعدد کتابیں اور مضامین تحریرکیے ہیں، وہ افغان امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی کتاب سوویت افغان تعلقات، افغانستان کی تاریخ کے کئی اہم گوشوں کو آشکار کرتی ہے۔
چند سال قبل شایع ہونے والی اس کتاب کا بائیں بازو کے دانشور اثر امام نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ کتاب کے پہلے باب کا عنوان " افغانستان سرخ و سیاہ سیاست " ہے۔ اس باب میں بتایا گیا ہے کہ اپنے محل وقوع کے لحاظ سے افغانستان وسط ایشیائی ممالک میں شامل ہوتا ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں ترکمانستان، ایران اور پاکستان سے ملتی ہیں۔ اس کا رقبہ 2 لاکھ 51 ہزار 773 مربع میل ہے۔
ملک کا موسم کچھ علاقوں میں انتہائی ٹھنڈا، کچھ میں انتہائی گرم ہوتا ہے، تمام آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی زبان پشتو ہے تاہم فارسی بولنے اور سمجھنے والے لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، افغانی لہجہ کو دری کیا جاتا ہے، مزید 18 دیگر زبانیں بھی افغانستان میں بولی جاتی ہیں۔ ملک میں آمو دریا کے علاوہ ہلمند، کابل، قندھار، ہری، رود، مرغاب اور فرح دریا بھی بستے ہیں۔ افغانستان میں رہنے والے پشتون قبائل کے شجرۂ نصب کے حوالہ سے ویسے تو بہت سی آزاد آراء پائی جاتی ہیں لیکن زیادہ پختہ رائے یہ ہے کہ یہ افغان نامی شخص کی اولاد ہیں جو حضرت یعقوب کے بیٹے بن یامین کی اولاد میں سے ایک تھے۔
1878-79 کی دوسری اینگلو افغان جنگ چھڑ گئی، شیر علی خان اقتدار سے محروم ہوئے۔ افغانستان برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا لیکن افغانستان کے عوام نے اس قبضہ کو قبول نہیں کیا۔ برطانیہ نے اقتدار شیر علی کے بھتیجے امیر عبدالرحمن کے حوالہ کیا۔ 1901 میں امیر عبدالرحمن کے بڑے بیٹے امیر حبیب اﷲ نے اقتدار سنبھالا۔ 1919میں امیر حبیب اﷲ کے قتل کے بعد ان کے تیسرے بیٹے امان اﷲ خان تخت نشین ہوا۔ اس سال تیسری اینگلو افغان جنگ چھڑگئی۔ اس جنگ کا نتیجہ افغانستان کے حق میں رہا۔ امان اﷲ خان نے بنیادی اصلاحات نافذ کرنے کی ٹھانی لیکن رجعت پسند لوگوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
باچہ سکا نامی ایک ظالم شخص عارضی حکمراں بنا۔ امیر دوست محمد کی پشت میں سے ایک جنرل سردار محمد نادر خان کو 16اکتوبر 1929 کو زعما مجلس نے افغانستان کا نیا حکمراں مقرر کیا۔ 1933میں اسے قتل کردیا گیا، تخت پر اس کا بیٹا محمد ظاہر شاہ بیٹھا جسے افغانستان کے آخری بادشاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
مصنف نے اپنی تحقیق میں لکھا ہے کہ ظاہر شاہ نے نچلی سطح تک سیاست کرنے کی آزادی دی۔ تب افغان معاشرہ میں موجود اس خلاء کو بھرنے کے لیے یکم جنوری 1965 کو کابل میں نور محمد ترہ کئی کے گھر پر مارکسٹوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اکٹھا ہوا اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی بنیاد رکھی۔ ترہ کئی کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی انتہائی سخت نظم و ضبط کی حامل ہونی چاہیے۔ وہ روس اور افغانستان کے حالات کے فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے لینن کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے، حالانکہ افغانستان جزوی طور پر بھی روس سے مشابہت نہیں رکھتا تھا۔
ترہ کئی حد سے زیادہ نظم و ضبط اور رازداری کے عنصر نے نوزائیدہ پارٹی کو جواں ہونے سے پہلے بیمار کردیا۔ پارٹی رہنما حفیظ اﷲ امین اور ببرک کارمل کے درمیان تلخیاں بڑھنے اور سرد مہری کا اظہار ہونے لگا جو پارٹی کے سب سے زیادہ جوان سرگرم اور جوشیلے بانیاں میں سے تھے۔ جن غیر پشتون کامریڈوں نے پارٹی کے اندر پشتون بالادستی کی بو سونگھ لی تھی۔
انھوں نے پارٹی سے علیحدہ ہو کر اپنی ایک پارٹی بنائی تھی۔ جب ترہ کئی پارٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تو ببرک کارمل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے تھے۔ اسی طرح دولسی جرگہ اور کابل کے طلبہ اور اساتذہ میں اثر و رسوخ کی بناء پر ببرک کارمل زیادہ با اختیار بن گئے، اب وہ صرف حفیظ اﷲ امین ہی کے نہیں بلکہ ترہ کئی کے بھی مقابلہ پر کھڑے ہوئے۔ امین اور ترہ کئی زبردست تنظیم کاری کی صلاحیتوں سے مالامال جب کہ کارمل سحر انگیز تقریر کرنے والے مقرر تھے۔
1966 ہی سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا اخبار حلق کے نام سے نکلتا تھا جو سیکریٹری جنرل نور محمد ترہ کئی کے نظریات کی ترویج کا ذریعہ بنا جب کہ مارمل اور امیر کبیر ایک اور اخبار پرچم شایع کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان دونوں اخبارات کے اردگر جمع پارٹی کارکن دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہوئے۔ PDPA کا منشور قومی جمہوریت کے قیام کا اظہار کرتا تھا۔ ظاہر شاہ حکومت نے ترہ کئی اور امین کے ساتھیو ں پر سختی اور ببرک کارمل سے جڑے لوگوں پر ہلکا ہاتھ رکھنے کی پالیسی اختیار کی تھی۔
روسی مصنف کا استدلال ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے دونوں گروہوں میں تفرقہ اب اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس چیلنج کو بانٹنا کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ پارٹی کے اخبار خلق پر پابندی کے بعد جنبش اور رہنما کے نام سے دو نئے اخبار جاری ہوئے، دونوں خفیہ طور پر شایع ہوتے تھے۔ ببرک کارمل نے ایک طرف کوشش کی کہ حکومت خلق کو شایع کرنے کی اجازت دے، دوسری طرف پرچم خفیہ طور پر شایع ہوتا رہا۔ 1967 میں پارٹی کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد خلق اور پرچم نے اپنے آپ کو منظم کیا لیکن خلق والا حصہ لینن کے معیار پر پارٹی تشکیل کے نتیجہ میں عوام کی نظروں سے اوجھل ہوا۔
سردار داؤد نے شاہ ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ 1973 سے 1978 تک ببرک کارمل اور اس کے پرچم گروپ نے داؤد خان کے ساتھ اقتدار میں شریک ہو کر عوام میں اپنا مقام کھو دیا۔ سردار داؤد کی حکومت کمیونسٹوں سے جان چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اور سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی پاکستان کی نیشنل عوامی پارٹی اور بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے دباؤ پر خلق اور پرچم ایک پارٹی میں متحد ہوئے۔ 7 مئی 1978کو صبح 9:00بجے انقلاب کا اعلان کردیا گیا لیکن انقلاب کی فتح کا اعلان 28 اپریل 1978 کو باقاعدہ طور پر کیا گیا۔
انقلابی حکومت نے انقلابی اصلاحات نافذ کیں مگر پارٹی میں گروہ بندی شدید ہوتی گئی۔ ترہ کئی پھر امین قتل ہوئے۔ روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی۔ ببرک کارمل پھر ڈاکٹر نجیب اﷲ نے کمیونسٹ حکومت کی قیادت سنبھالی۔ اس پورے عرصہ کمیونسٹ حکومت اندر سے سازشوں کا شکار رہی۔
مصنف نے افغان مجاہدین کو منظم کرنے میں امریکا کے کردار کا بھی احاطہ کیا ہے۔ یہ روس میں شایع ہونے والی پہلی کتاب ہے جس میں سابق سوویت یونین کے کردار بھی تنقید کی گئی ہے۔ حسن جاوید نے بدلتی دنیا پبلی کیشنز کے تحت اس کتاب کو خوبصورت انداز میں شایع کیا ہے۔ افغانستان کے بارے میں جاننے والوں کے لیے یہ کتاب ایک اچھا تحفہ ہے۔