بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اپنی جغرافیائی حیثیت کی بناء پر یہ صوبہ جیوپولیٹیکل سیاست میں اہم حیثیت رکھتا ہے۔ بلوچستان کے ایک طرف افغانستان ہے، اور دوسری طرف ایران ہے۔ پھر بحیرہ عرب سے منسلک ہونے کی بناء پر خلیجی ریاستوں کے انتہائی قریب ہے مگر بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ ہے۔
بلوچستان میں بلوچ، پختون، افغان ہزارہ منگول اور دیگر صوبوں سے آئے ہوئے افراد آباد ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ مزاحمت کی تاریخ ہے۔ 1932میں میر عزیز یوسف مگسی کی کوششوں سے بلوچستان اینڈ آل انڈیا کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس اجتماع میں پہلی دفعہ بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز بلند ہوئی۔
میر غوث بخش بزنجو ضلع خضدار کی تحصیل نال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے کراچی اور مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں تعلیم حاصل کی۔ میر غوث بخش بزنجو دوران تعلیم ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان کے بٹوارہ کے وقت ریاست قلات کی اسمبلی میں جس کو دیوان کہا جاتا تھا خطاب کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان کی جداگانہ حیثیت کو برقرا ر رکھا جائے، میر غوث بخش بزنجو نے کچھ عرصہ مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور انھیں مایوسی ہوئی۔
50ء کی دہائی کے آخری عشرہ میں قوم پرستوں، کمیونسٹوں اور جمہوری اقدار کی بالادستی کے لیے متحرک گروہوں نے مل کر نیشنل عوامی پارٹی قائم کی جس کے صدر مشرقی پاکستان کے مولانا عبدالحمید بھاشانی تھے۔ نیپ نے بنیادی انسانی حقوق، استحصال کے خاتمہ اور قوموں کے حقوق کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ نیپ نے ون یونٹ کے خاتمہ کے لیے تحریک چلائی۔ میر غوث بخش بزنجو، سردار خیر بخش مری، سردار عطاء اﷲ مینگل، گل خان نصیر، عبدالصمد اچکزئی، ولی خان، جی ایم سید، میاں افتخار الدین اور میاں محمود علی قصوری نے تاریخی جدوجہد کی۔
میر غوث بخش بزنجو نے کئی سال بلوچستان اور پنجاب کی جیلوں میں گزاری۔ 1970 میں ون یونٹ ختم ہوا اور بلوچستان کو مکمل صوبہ بنایا گیا۔ 1966میں نیپ دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ ایک حصہ کی قیادت مولانا بھاشانی اور دوسرے کی قیادت ولی خان نے کی۔ بلوچ قیادت نے ولی خان کا ساتھ دیا۔ نیپ نے 1970کے انتخابات میں بلوچستان میں اکثریت حاصل کی۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو سرحد اور بلوچستان میں حکومتیں بنانے کی دعوت دی۔
میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، مگر نو ماہ بعد یہ حکومت توڑدی گئی۔ نیپ کی حکومت نے بلوچستان کی ترقی کے لیے بنیادی اقدامات کیے، پھر فوجی آپریشن ہوا۔ میر غوث بخش بزنجو اور دیگر رہنما چار سال تک حیدرآباد سازش کیس کی بناء پر نظربند رہے۔ نیپ میں اس وقت دو قسم کی رائے پائی جاتی تھی۔ ایک گروہ مسلح جدوجہد کے ذریعہ بلوچستان کو آزاد کرانے کی خواہش کررہا تھا۔ میر غوث بخش بزنجو پاکستان کے وفاق کے تحت بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کے حامی تھے۔ میر صاحب مسلح جدوجہد کو بلوچستان کے عوام کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے، یوں انھوں نے 80ء کی دہائی میں نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی۔
ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادہ میر حاصل خان بزنجو، ڈاکٹر مالک بلوچ اور سینیٹر اکرم دشتی وغیرہ نے نیشنل پارٹی کو جمہور ی روایات کے مطابق منظم کیا۔ یہ جماعت وفاقیت کے اصولوں کے تحت بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
نیشنل پارٹی کے رہنماؤں میر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے آئین میں 18ویں ترمیم کے منظوری کے لیے تاریخی کردار ادا کیا۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں کو وہ حقوق حاصل ہوئے جس کا وعدہ 23مارچ 1940 کو لاہور میں ہونے والی قرارداد لاہور میں کیا گیا تھا، یہ قراردادِ پاکستان کہلائی۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ 2013 کے انتخابات کے بعد بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، وہ بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے جن کا تعلق متوسط طبقہ سے تھا۔ میر حاصل بزنجو نیشنل پارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔
تین سال قبل کوئٹہ میں نیشنل پارٹی کی کانگریس ہوئی۔ اس کانگریس میں 800کونسلر اور باقی مبصرین تھے۔ اس کانگریس میں کارکنوں نے دو دن تک میر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ کی کارکردگی پر شدید تنقید کی۔ بعض کارکنوں نے تو اپنی تقاریر میں صرف حاصل بزنجو پر طنز کے نشتر چلائے مگر حاصل بزنجو نے دو دنوں تک تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرکے، تحمل اور آزادئ رائے کے احترام کی ایسی مثال کسی اور جماعت میں نظر نہیں آتی۔
اس مہینہ کے آخری تین دنوں میں نیشنل پارٹی کی کانگریس کوئٹہ میں منعقد ہوئی، کانگریس کا پنڈال حاضری سے بھر ہوا تھا۔ پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان بلیدی کا کہنا ہے کہ اس کانگریس میں 800منتخب کونسلر اور 300کے قریب مندوبین شریک ہوئے، اس کانگریس کو حاصل بزنجو سے منسوب کیا گیا تھا۔
بعض حلقوں کا خیال تھا کہ حاصل بزنجو کے انتقال کے بعد نیشنل پارٹی کمزور ہوجائے گی مگر سیکڑوں کونسلروں کے جوش و خروش کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ان کارکنوں نے اپنے قائد کی موت کو عزم میں تبدیل کیا ہے اور شخصیت پرستی کا کوئی تصور جماعت میں موجود نہیں ہے۔ اس کانگریس میں بلوچستان اور مرکزی سطح کے عہدیداروں کے انتخابات ہوئے، یہ انتخابی عمل چار دن تک جاری رہا۔ کونسلروں کی اکثریت بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اپنے خرچہ پر آئی تھی۔
منتظمین نے بتایا کہ اس کانگریس پر 35 لاکھ روپے خرچ ہوئے جو قائدین اور کارکنوں کے چندے سے پورے ہوئے۔ کانگریس کے مندوبین نے بلوچستان سمیت ملک کی مجموعی سیاسی و معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور تجاویز پیش کیں۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر انتخابات شفاف ہوئے تو نیشنل پارٹی کامیابی حاصل کرے گی۔ ان کا مدعا تھا کہ قومیتوں کے حقوق کو تسلیم کیے بغیر اور سماجی جموریت کے قیام کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹبلشمنٹ کی اجارہ داری معیشت پر قائم ہوگئی ہے جو خطرناک ہے۔
مندوبین کی یہ رائے تھی کہ بلوچستان میں غیر سیاسی لوگوں کی مصنوعی سیاسی پارٹیوں اور نام نہاد عوامی نمایندوں کے اس ماحول میں ہزاروں سیاسی کارکنوں کی سیاسی شرکت کے لیے نیشنل پارٹی بہتر پلیٹ فارم ہے۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدر ایوب ملک نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ نیشنل پارٹی کا سارا ڈھانچہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے چلایا جارہا ہے۔ اس پارٹی کے دفتر میں پورے ملک کے کارکنوں کا ڈیٹا کمپیوٹر پر موجود ہے۔ بلوچستان میں اس وقت تین سیاسی دھارے ہیں۔
ایک سیاسی دھارہ ان سیاسی کارکنوں کا جو بندوق کے ذریعہ بلوچستان کی آزادی کے خواہاں ہیں۔ ایک دھارا اسٹبلشمنٹ کے حامیوں کا ہے جب کہ تیسرا دھارا نیشنل پارٹی کا ہے۔ میر غوث بخش بزنجو کے وفاق کے تحت بلوچستان کے حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کا راستہ طے کیا تھا۔
بی ایس او کے سابق چیئرمین اور نیشنل پارٹی میں شامل ہونے والے دانشور ڈاکٹر قہور خان نے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری نظام کی بالادستی کی جدوجہد نیشنل پارٹی تنہا نہیں کرسکتی۔ اس بناء پر بلوچستان سمیت تینوں صوبوں میں ایک وسیع تر متحدہ محاذ کی ضرورت ہے جو سیکیولرازم، قوموں کے حقوق اور جمہوری اداروں کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرے۔ نیشنل پارٹی پرامن جدوجہد کررہی ہے۔ یہ جماعت بلوچستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہے، یوں نیشنل پارٹی کا راستہ سب سے مشکل راستہ ہے۔