ع غ ایک کامیاب انسان ہے اور جیسے کہ کامیاب لوگ ہوتے ہیں، اُس میں کوئی خرابی نہیں، خرابیاں صرف ناکام انسانوں میں ہوتی ہیں، ع غ صبح بستر سے جاگنگ کرتا ہوا اٹھتا ہے اور رات کو سر کے بل کھڑا ہوکر مراقبہ کرتا ہے، یہ دونوں کام کرتے ہوئے آج تک اسے کسی نے دیکھا تو نہیں مگر راوی کا بیان یہی ہے کہ ع غ ایسا ہی پھرتیلا ہے۔
واضح رہے کہ راوی ع غ کا سالا ہے۔ ع غ میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں، مثلاً وہ ایک ہاتھ سے تالی بجا لیتا ہے، ایک دن اُس کے ملازم نے جوتے پالش نہیں کیے تو ع غ نے ایک مناسب رفتار سے اپنا ہاتھ اُس کے داہنے گال کے ساتھ مس کیا، حیرت انگیز طور پر تالی کی مترنم آواز آئی جو (سالے کے) کانوں کو بہت بھلی معلوم ہوئی، اُس دن سے سالا صاحب نے ع غ کی کامیابیوں کی فہرست میں یہ خوبی بھی جمع کر لی۔
ع غ کو گفتگو میں بھی کمال حاصل ہے، وہ لوگوں سے باتیں کرتا جاتا ہے اور لوگ اُس کے سحر میں یوں کھو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا وما فیھا کی خبر ہی نہیں رہتی، بڑی مشکل سے انہیں جھنجوڑ کر اٹھایا جاتا ہے، اس بات کا راوی ع غ کا سالا ہی نہیں بلکہ دفتر کے وہ تمام افراد ہیں جنہیں اکثر ع غ اپنی کامیابی کی کہانی سنا کر متاثر کرتا رہتا ہے۔
دراصل ع غ اُن نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہے جو کم وقت میں دولت سمیٹنا چاہتے ہیں، یہ وہ کام ہے جو ع غ سے بہتر شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔
جب وہ موج میں ہوتا ہے تو لوگوں کو بتاتا ہے کہ کیسے اُس نے ایک چھوٹی سی کمپنی بناکر کاروبار شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کمپنی کروڑوں روپوں کا بزنس کرنے لگی۔ ایک مرتبہ کسی نشست میں ایک نوجوان نے پوچھا کہ سر دیکھتے ہی دیکھتے کی تشریح کریں کہ یہ کیسے ہوا کہ ایک لاکھ روپے کی کمپنی چند برس میں ہی کروڑوں کی بن گئی!
اس کے جواب میں ع غ نے اپنی جدوجہد کی کہانی سنائی اور بتایا کہ جب اُس نے کاروبار شروع کیا تو اُس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے، سیلف ہیلپ کی کتاب میں اُس نے پڑھا تھا کہ پیسے کسی کے پاس بھی نہیں ہوتے، یہ کمانا پڑتے ہیں چنانچہ اُس نے کسی سیٹھ کے ہاں ملازمت کر لی، یہ چند ہزار روپے کی نوکری تھی مگر اُس نے ہمت نہیں ہاری۔
ایک روز سیٹھ کی بیوی بیمار ہو گئی تو اسے اچانک دکان چھوڑ کر افرا تفری میں جانا پڑا، اسی چکر میں وہ گلے کو تالا لگانا بھول گیا، ع غ نے جان لیا کہ دراصل یہی وہ موقع ہے جو قدرت نے اسے فراہم کیا ہے، سیلف ہیلپ کی کتابوں میں بھی اُس نے یہی پڑھا تھا کہ قدرت جب کوئی چانس دے تو اسے کھونا نہیں چاہئے بلکہ لپک کر بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ع غ نے یہ فائدہ اٹھا لیا۔ اپنا کاروبار شروع کرنے کے بعد بھی قدرت نے ع غ کو ایسے کئی موقع فراہم کیے جو اُس نے ضائع نہیں کیے، مثلاً اُس کا پہلا کاروبار سرکاری محکموں کو مشینری سپلائی کرنا تھا، سرکاری اہلکار بھلے لوگ ہوتے ہیں، ایسے ہی کسی خدا ترس کلرک نے ع غ کو سرکار کے ساتھ کاروبار کرنے کے دو سنہرے گُر سکھائے، پہلا، کوالٹی چاہے جتنی بھی گھٹیا ہو پر تمہاری چیز کا بھاؤ سب سے کم ہونا چاہئے اور دوسرا، فائل کا پیٹ کاغذوں سے بھرا ہو نا چاہئے۔
ع غ نے یہ باتیں کسی سیلف ہیلپ کی کتاب میں نہیں پڑھی تھیں، سو فوراً پلے سے کس کے باندھ لیں۔
البتہ تیسرا اصول جو اُس مردِ فہم و دانش نے نہیں بتایا تھا مگر ع غ کے استاد جناب شفیق تجوری والا المعروف تالا توڑ مرحوم و مغفور نے سمجھایا تھا کہ فائل ہی نہیں افسر کا پیٹ بھی بھرا ہونا چاہئے، اُس پر عمل کرتے ہوئے ع غ نے نیک دل کلرک کے ہاتھ پر چند ہزار کے نوٹ یہ کہہ کر رکھ دیئے کہ اگلے ماہ بٹیا کا نکاح ہے، میری طرف سے پیشگی سلامی قبول فرمائیں۔
یہ سُن کر کلرک کی آنکھیں بھر آئیں مگر زہد و تقویٰ کے اس پیکر نے وہ نوٹ واپس کر دیئے، جواب میں ع غ کی بھی آنکھیں پُرنم ہو گئیں اور اُس نے فوراً سلامی کی رقم دگنی کر دی۔ بے شک ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔
ع غ کی کامیاب زندگی ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے، شاید ہی کبھی کوئی ایسا موقع آیا ہو جب ع غ دل ہار بیٹھا ہو، حالانکہ اپنے لوگ کسی شخص کو ترقی کرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، فوراً حسد میں مبتلا ہو کر اُس کے خلاف سازشیں شروع کر دیتے ہیں یا اسے بدنام کرنے کی مہم چلا دیتے ہیں۔
ع غ نے ایسا موقع ہی نہیں آنے دیا اور اِس کا سہرا ع غ کے ایک اور استاد الحاج حضرت لطیف پوڈر والا مدظلہ کے سر جاتا ہے جنہوں نے شروع میں ہی اسے یہ لطیف نکتہ سمجھا دیا تھا کہ کاروبار جیسا بھی ہو ہر سال عمرہ کرنا نہیں چھوڑنا اور اپنے مسلک کی مسجد کے مولوی کو چندہ دینا نہیں بھولنا، یہ بات بھی ع غ نے کسی سیلف ہیلف کتاب میں نہیں پڑھی تھی سو فوراً یاد کر لی۔ وہ دن اور آج کا دن ع غ نہ صرف کھل کر چندہ دیتا ہے بلکہ راوی کے مطابق ضرورت مند جوان بیواؤں کی حسبِ توفیق داد رسی بھی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ یہاں راوی سالا نہیں بلکہ دورپار کی ایک سالی ہے، جو بیوہ ہے۔
آج ع غ اکیلا نہیں بلکہ اس جیسے لاکھوں لوگ ہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں، کوئی صحافت کا ع غ ہے تو کوئی حکومت کا، کوئی بیورو کریسی کا ع غ ہے تو کوئی کاروبار کا۔
اِنہیں جب موقع ملتا ہے یہ عام لوگوں کو بھاشن دینا شروع کر دیتے ہیں، بھاشن کبھی اخلاقیات کے موضوع پر ہوتا ہے تو کبھی مذہب پر، کبھی یہ لوگ سماج کی برائیوں کی وجہ سمجھا رہے ہوتے ہیں اور کبھی اِس بات پر سینہ کوبی کرتے نظر آتے ہیں کہ ملک میں اتنی کرپشن کیوں ہے۔
بے شک اِن سب ع غ لوگوں کو سیلف ہیلپ کے موضو ع پر نئی کتاب لکھنا چاہئے، مجھے یقین ہے وہ ریکارڈ توڑ دے گی۔