نسخہ نمبر1:مجھے اندازہ نہیں تھا کہ بیجنگ میں کوئی حسینہ یوں ٹکرا جائے گی، سب وے اسٹیشن سے نکلنے کے بعد میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کہاں رُخ کرنا ہے کہ ایک مترنم سی آواز کانوں سے ٹکرائی، مڑ کر دیکھا تو ایک مہ جبیں کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ میں نے سوچا شاید فون پر کسی سے بات کر رہی ہے مگر غور کیا تو روئے سخن میری طرف تھا، اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا اُس نے چینی زبان میں کچھ کہا، میں نے ہونقوں کی طرح سر ہلایا۔
حسینہ نے اِس دفعہ قہقہہ لگایا، میں نے دل میں کہا بچے کی جان لے گی کیا، ابھی بات میرے لبوں پر ہی تھی کہ اُس نے میرا بازو پکڑا اور بولی، مجھے معلوم ہے تم بھی میری طرح بیجنگ میں اکیلے ہو اور اچھے بچے رات کو یوں اکیلے نہیں پھرتے۔ پھر ہم تھے اور بیجنگ کی سرد رات، آنکھوں ہی آنکھوں میں کٹ گئی۔
نسخہ نمبر2:بیجنگ کے لوگ گرم پانی پیتے ہیں، اس سے اِن کا ہاضمہ بھی درست رہتا ہے اور طویل عمر پاتے ہیں، آپ کہیں بھی ہوں لوگ آپ کو خواہ مخواہ گرم پانی کی سپلائی دے جائیں گے۔ پاکستان سے بہت محبت کرتے ہیں، ہم نے جسے بھی بتایا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے اُس نے چینی زبان میں پاک چین دوستی کا نعرہ لگایا۔
چین میں قانون سب کے لیے برابر ہے، یہاں چھوٹے بڑوں کا احترام کرتے ہیں، کوئی جرم نہیں کرتا، کوئی فحاشی نہیں ہے، کوئی فارغ نہیں بیٹھتا، سب لوگ کام کرتے ہیں، نشے کی لت سے یہ قوم چھٹکارا پا چکی ہے، دفاتر میں سرخ فیتہ نہیں ہے، افسر عوام کی خدمت کرتے ہیں، عوام ماؤ سے محبت کرتے ہیں، ماؤ عوام سے محبت کرتے ہیں اور ہم خود سے محبت کرتے ہیں۔
نسخہ نمبر3:بیجنگ کے نیشنل اسٹیڈیم کی تعمیر 2003میں شروع ہوئی اور کئی مراحل کے بعد 2008میں مکمل ہوئی، اس پر سوا دو ارب یوان لاگت آئی، یہاں 2008کے اولمپکس مقابلے منعقد ہوئے تھے، اِس اسٹیڈیم کا ڈیزائن ایسا ہے کہ بالکل کسی پرندے کا گھونسلہ لگتا ہے اسی لیے اسے Bird's Nestبھی کہتے ہیں۔ اس اسٹیڈیم میں 80ہزار تماشائیو ں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، مستقبل میں چینی حکومت کا یہاں شاپنگ مال اور ہوٹل بنانے کا بھی ارادہ ہے تاکہ یہاں لوگوں کی آمد و رفت بڑھائی جا سکے۔
کیا اچھا وقت تھا جب لکھاری لوگ اپنے سفر کی روداد مندرجہ بالا اِن تین نسخوں میں سے کسی ایک کو بروئے کار لا کر لکھ مارتے تھے۔ خدا کو جان دینی ہے، بیجنگ میں راستہ پوچھنے کے لیے ہم نے ایک حسینہ کو روکا تھا اُس اللہ لوک نے کہا مجھے راستوں کا علم نہیں اِس سے پوچھ لو، مڑ کر دیکھا تو ایک پکی عمر کی عورت جو غالباً نشے میں بھی تھی، ہمیں دیکھ کر دانت نکال رہی تھی، ہم نے راستہ پوچھا وہ ساتھ چھوڑنے چل پڑی، بڑی مشکل سے اُس سے جان چھڑائی۔
نسخہ نمبر دو بھی ہمارے کسی کام کا نہیں، مانا کہ ہمارے ملک میں بہت برائیاں ہیں مگر اب ایسا بھی نہیں کہ سوائے ہمارے دنیا کے سارے ملک ہی جنت ہیں۔ رہا تیسرا نسخہ تو بیس تیس سال پہلے یہ نسخہ چل جاتا تھا مگر آج جب ایک بچہ بھی گوگل سے یہ تمام معلومات نکال سکتا ہے تو پھر ایسے لکھے سے بہتر ہے کہ بندہ ٹماٹر کی آڑھت کرلے، خدا برکت دے گا۔ ویسے میں سنجیدگی سے اِس کاروبار کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔
بیجنگ میں ہمارے گائیڈ رچرڈ کا کہنا تھا کہ اُسے انگریزی سیکھنے میں کئی سال لگے "شروع شروع میں مجھے سِکس، سیکس اور تھینکس میں کوئی فرق ہی نہیں لگتا تھا، اسی لیے میں جب بھی کسی سے ہاتھ ملاتا تو تھینکس کہنے کی بجائے سیکس کہہ دیتا!" کئی سال تک یونہی چلتا رہا پھر کسی مردِ عاقل نے اسے اِن تینوں الفاظ کا فرق بتایا۔
رچرڈ نے کہا کہ چینی زبان انگریزی سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے، اِس میں مختلف آوازوں کا مختلف مطلب ہے بالکل ویسے جیسے انگریزی میں desert اور dessertکا فرق ہے۔ زبان و بیان کی باریکیوں پر رچرڈ کا لیکچر جاری تھا کہ ہم بیجنگ کے کیپٹل میوزیم پہنچ گئے۔ اس عجائب گھر کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہاں کے نوادرات کی تفصیل چینی زبان میں لکھی ہے، میوزیم کی دو تین منزلوں پر انگریزی لکھی بھی مل جاتی ہے مگر یوں لگتا ہے جیسے چینی اِس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہوں کہ کوئی غیر ملکی اِس میوزیم کا رُخ نہ کرے۔
سب سے اوپری منزل بیجنگ کی تاریخ کے لیے مختص ہے، یہاں پرانے شہر کا ایک خاکہ سا بنا کر رکھا گیا ہے، اِس میں گھومتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے آپ سینکڑوں سال پہلے کے بیجنگ میں گھوم رہے ہوں۔ رچرڈ کو نجانے کیوں ہمارے بارے میں یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ ہمیں تاریخ سے گہرا شغف ہے، سو کیپٹل میوزیم کے بعد اُس نے ہمیں چین کا ٹیکس میوزیم بھی دکھایا۔
یہاں پہنچ کر پتا چلا کہ چین کی ٹیکس وصول کرنے کی چار ہزار سال پرانی تاریخ ہے، لوگوں سے کتنی قسم کے ٹیکس وصول کیے جاتے تھے اِس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ بیسویں صدی میں حکومت نے تقریباً سات ہزار ٹیکس ختم کیے۔ (یہ بات وہاں کے ایک اہلکار نے بتائی، واللّٰہ اعلم درست ہے کہ نہیں ) اس عجائب گھر میں اٹھارہویں صدی کے ٹیکس سپروائزر کا ایک مجسمہ نصب ہے، یہ صاحب اُس وقت کی ملکہ عالیہ کے بھائی تھے اور بھتہ وصولی جسے اُس زمانے میں ٹیکس وصولی کہا جاتا تھا، کے ماہر تھے۔
ایک عجیب بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ آزادی کے وقت چونکہ تربیت یافتہ ٹیکس اہلکاروں کی کمی تھی تو ٹیکس وصولی کا کام فوجی سپاہیوں کے ذمے تھا، بعد میں ریاست نے شفقت کی اور باقاعدہ ٹیکس کا محکمہ قائم کیا۔
بیجنگ میں ہمارا یہ تیسرا ہفتہ ہے، نجانے پھر کب آنا ہو، مگر کوئی آئے جائے اِس سے کیا فرق پڑتا ہے، کتنے آئے اور کتنے گئے، کیا شہنشاہ اور کیا سپہ سالار، بالآخر سب یہیں دفن ہوئے، بیجنگ ایسے تمام طرم خانوں کے لیے شہرِ عبرت ہے جو خود کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔