Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Guest/
    3. Venus, Aik Mehbooba

    Venus, Aik Mehbooba

    وینس میں شدید گرمی تھی، یوں لگ رہا تھا کہ سورج سوا نیزے پر آ چکا ہے فقط قیامت کا اعلان ہونا باقی ہے، اس گرمی میں ہم واٹر بس کی ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں لگ گئے، جب باری آنے لگی تو کاؤنٹر کلرک نے اچانک سرخ بتی روشن کر دی اور اشارہ کیا کہ کسی دوسرے کاؤنٹر پر جاؤ، ایک اطالوی عورت نے اس بیہودہ حرکت پر بہت احتجاج کیا مگر اُس مرد نا ہنجار پر کوئی اثر نہیں پڑا، وہ اطمینان سے کاؤنٹر چھوڑ کر باہر آیا اور سگریٹ پینے لگا۔ پاکستان یاد آ گیا، ایسی حرکتیں ہم لوگ کیا کرتے ہیں مگر اٹلی پہنچ کر احساس ہوا کہ یہ لوگ ہمارے جیسے ہیں بلکہ ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ اگلے کاؤنٹر سے ریالٹو آنے جانے کی ٹکٹ لی جو واپسی کے سفر کے لئے بیکار ثابت ہوئی کیونکہ ریالٹو میں بتایا گیا کہ واٹر بس شام آٹھ بجے تک بند ہے، پیدل اسٹیشن تک جاؤ، اسٹیشن پہنچ کر ٹکٹ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص سے رابطہ کیا تو اُس نے لا پرواہی سے کندھے اچکا کر کہا کہ میں کچھ نہیں کر سکتا، کسی کو شکایت کرنی ہے تو کر دو۔ طبیعت صاف ہو گئی۔ ہم لوگ یورپ کے شہروں کی شان میں کچھ زیادہ ہی قصیدے لکھ دیتے ہیں، ان کے سسٹم کی ایسے تعریف کرتے ہیں جیسے اُس میں کوئی خرابی ہی نہیں، وہاں ہر چیز منظم ہے، ان کے موسم بھی شاندار ہیں، ان کے لوگ بھی مہربان ہیں، وہاں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو سکتی، ہر بات کا قانون موجود ہے، وغیرہ۔ یہ باتیں ناروے، سویٹزر لینڈ جیسے ملکوں میں کافی حد تک درست ہیں مگر اٹلی بالکل اور طرح کا ملک ہے۔ جونہی آپ سویٹزرلینڈ سے اٹلی کی سرحد پار کرتے ہیں، فرق ظاہر ہو جاتا ہے، خود رو جھاڑیاں، تھوڑا سا گند، دیواروں پر نقش و نگار، اٹلی کی آمد کا پتا دیتے ہیں۔ بلاشبہ اٹلی کے پاس جو شہر ہیں ان کا جوڑ کوئی نہیں، فلورنس، روم، وینس، کورٹینا، سسلی، دنیا جہان سے آنے والے سیاح ان جگہوں کو دیکھ کر پاگل ہو جاتے ہیں مگر اطالوی لوگ بذات خود کافی اکھڑ مزاج اور نک چڑے ہیں، ایک سے دوسری مرتبہ کوئی بات پوچھ لو تو بد مزاجی باہر آ جاتی ہے۔ ٹریفک کی خلاف ورزی تو نہیں کرتے مگر پاسداری کا وہ میعار نہیں جو دوسرے ملکوں میں ہے۔ چور اچکوں اور پاکٹ ماروں سے یہاں ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ دیواروں پر نقش و نگار تو یورپ کے دیگر شہروں میں بھی نظر آتے ہیں مگر اٹلی میں یہ نقاشی کسی خوبصورتی میں اضافہ نہیں کرتی بلکہ الٹا بد صورتی کا سبب بنتی ہے، صفائی ستھرائی کا بھی وہ انتظام نہیں جیسا سویٹزر لینڈ میں چھوڑ کر آئے تھے اور اخلاق میں تو سمجھیں کہ ہمارے ہی پیٹی بند بھائی ہیں۔ ایسے میں یہاں سیاح کیوں خوشی خوشی آتے ہیں، اس کا جواب وینس دیکھ کر مل گیا۔

    جونہی آپ ٹرین سے وینس کے سینٹ لوسیا اسٹیشن سے باہر نکلتے ہیں تو ایک عجیب و غریب شہر آپ کا استقبال کرتا ہے، یہ شہر سینکڑوں سال سے سمندر پر آباد ہے، اس شہر میں گھومنے کے لئے لوگ گاڑی نہیں بلکہ واٹر بس یا واٹر ٹیکسی استعمال کرتے ہیں کیونکہ شہر کی تمام عمارتیں، بازار، دفاتر، مکانات، سمندر میں یوں کھڑے ہیں کہ پانی میں جائے بغیر ان تک پہنچنا ممکن نہیں اور پانی میں جانے کا طریقہ کشتی ہے، لوگ واٹر بس کی ٹکٹ خریدتے ہیں اور شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ سان مارکو شہر کا مرکز اور دل ہے، اسٹیشن سے یہاں آپ واٹر بس میں بھی آ سکتے ہیں اور تنگ گلیوں میں پیدل بھی، ان گلیوں کے اندر تہہ در تہہ قدیم عمارتیں موجود ہیں جن کی کئی سو برس کی تاریخ ہے، چپے چپے پر ریستوران اور دکانیں ہیں، دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا بڑا اسٹور ہو جس کی چیزیں یہاں دستیاب نہ ہوں۔ سان مارکو پہنچ کر انسان گویا مبہوت ہو جاتا ہے، اس جگہ کے کرو فر اور فن تعمیر کی مکمل تصویر کشی کرنا ممکن نہیں۔ جو اثاثہ اس شہر کے پاس ہے وہ دنیا میں کسی اور کے پاس نہیں، اسی وجہ سے لوگ پوری دنیا سے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں جبکہ سیاحوں کی سہولت کا حال یہ ہے کہ اسٹیشن سے لے کر سان مارکو تک کہیں بھی بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں، اگر آپ چل کر تھک گئے ہیں اور کچھ دیر سستانے کا دل ہے تو کسی ریستوران میں بیٹھ کر کچھ آرڈر کرنا پڑے گا اور "کچھ" کا مطلب یہ نہیں کہ ایک جوس کا آرڈر کر کے چار بندے دو گھنٹے بیٹھ جائیں، ریستورانوں میں ضرورت سے زیاد ہ بل بنا کر پیش کرنا بھی معمول ہے، آپ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بیٹھنے کا دوسرا آپشن کسی پُل کی سیڑھیاں ہیں، اس کے علاوہ کوئی صورت نہیں۔ اِس پورے علاقے میں جہاں ہر وقت ہزاروں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے مشکل سے تین یا چار ٹوائلٹ ہیں، وہاں ڈیڑھ یورو کے سکے ڈال کر داخل ہونا پڑتا ہے، مشین صرف ایک یورو کا سکہ قبول کرتی ہے، واپس کچھ نہیں کرتی تو عملاً یہ فیس دو یورو بن جاتی ہے، اس کا بھی آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ وینس کی پانی کی گلیوں میں اگر آپ نے کشتی پر سیر کرنی ہے جسے یہاں گنڈولا کہا جاتا ہے تو اس کی فیس حکومت نے مقرر کر رکھی ہے مگر اطالوی ملاح کبھی کبھار یہاں بھی سیاحوں کو بیوقوف بنا کر زیادہ پیسے اینٹھ لیتے ہیں۔ وینس میں بلا مطلب کے اگر کسی نے تسلی سے بات کی تو وہ بنگلہ دیشی تھے، یہ لوگ بہت محنت کرتے ہیں، وینس میں سینکڑوں ہوٹل ہیں، یہ لوگ اسٹیشن سے سیاحوں کاسامان لاد کر دو پہیوں کی ٹرالی پر کھینچ کر ہوٹل تک پہنچاتے ہیں، اگر ہوٹل قریب ہو تو فی بیگ پانچ یورو اگر ذرا دور ہو تو دس یورو، روزانہ شدید گرمی اور رش میں وینس کی گلیوں اور پلوں سے ہوتے ہوئے سامان لاد کر کئی چکر لگانا انتھک محنت کا کام ہے جو یہ بنگلہ دیشی کرتے ہیں۔

    اٹلی کے لوگ اگر کچھ بھی نہ کریں تو اکیلا وینس شہر انہیں پالنے کے لئے کافی ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنی تمام تر بیہودہ حرکتوں اور اطالویوں کے اکھڑ مزاج کے باوجود یہاں سیاح دیوانوں کی طرح آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وینس میں سہولتوں کا فقدان ہے یا پروفیشنل ازم کی کمی ہے تو پھر یہاں ٹورسٹ کیوں آتا ہے، پاکستان کیوں نہیں آتا! اس کا جواب سادہ ہے، وینس یا اٹلی کے کسی بھی شہر میں یورپ کے دیگر شہروں کی طرح بنیادی سہولتیں موجود ہیں، سستی ائیر لائنز، مہنگے اور سستے بجٹ کے ہوٹل، ٹرین، ٹرام اور بس کا متصل نظام، یورپ کا آزاد کلچر اور محفوظ کیا ہوا ثقافتی ورثہ۔ وینس میں بیٹھنے کی جگہ ہو نہ ہو، سان مارکو کا ورثہ محفوظ ہے، ہر قسم کے ہوٹل یہاں ملتے ہیں، دنیا کی ہر ائیر لائن یہاں آتی ہے، ایسے میں اگر آپ ذرا سمجھداری سے کام لیں تو اطالویوں کی اٹھائی گیری سے بچ کر وینس یا اٹلی کے کسی بھی شہر کی سیر با آسانی کر سکتے ہیں۔ وینس اپنی تمام تر قباحتوں کے باوجود آج بھی میرے محبوب شہروں کی فہرست میں شامل ہے کیونکہ محبوبہ اگر حسین ہو تو اُس کے نخرے تو برداشت کرنا ہی پڑتے ہیں، وینس ایسی ہی محبوبہ ہے!

    About Yasir Pirzada

    Yasir Pirzada

    Muhammad Yasir Pirzada, is a Pakistani writer and columnist based in Lahore. He is the son of famous Urdu writer Ata ul Haq Qasmi. His weekly column "Zara Hat Kay" in Daily Jang, Pakistan’s most widely circulated Urdu daily and his fortnightly column with the name "Off the beaten track" in The News, a leading English daily, addresses issues of an ordinary citizen in humorous style.

    Yasir did his graduation from Government College, Lahore and then joined The Nation, an English daily. He later acquired post-graduate degree in Political Science from University of the Punjab and then joined Civil Services of Pakistan.

    While doing his Masters from University of the Punjab, Yasir wrote some columns in daily Nawa-i-Waqt with the name of "Zara Hat Key". However, since November 2006, Yasir has been writing regular weekly column in Daily Jang; and since October 2009 a fortnightly column in the YOU Magazine of daily The News.