Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Guest/
    3. Zamana Naya Hai, School Kyon Purane Hain?

    Zamana Naya Hai, School Kyon Purane Hain?

    قصے کہانیوں میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ فلاں ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، بادشاہ بہت رحم دل تھا، رعایا (بغیر ٹیکس دیے ہی) خوشحال تھی، ملکہ بے حد خوبصورت اور رحم دل تھی، بس ایک کمی تھی کہ دونوں کی اولاد نہیں تھی، یہ غم بادشاہ کو روز بروز کھا رہا تھا کہ اُس کے بعد اِس وسیع و عریض سلطنت کا وارث کون ہوگا، اُس زمانے میں چونکہ الیکشن کروانے کا رواج نہیں ہوتا تھا اِس لئے بادشاہ کی پریشانی قابلِ فہم تھی۔ ایک روز بادشاہ شکار کے لئے جنگل میں گیا، وہاں اُس کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی جنہوں نے بادشاہ کی پریشانی بھانپ کر اسے ایک سیب دیا اور کہا کہ آدھا سیب تم کھاؤ اور آدھا ملکہ کو کھلاؤ، خدا نے چاہا تو چاند سا بیٹا پیدا ہوگا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے، سیب کھانے کے بعد ملکہ امید سے ہو جاتی اور سال کے بعد بادشاہ کے محل میں بیٹا پیدا ہو جاتا، بعض اوقات بادشاہ یہ سیب اپنے غلام کو کھلا دیتا مگر بزرگ کی کرامت سے بیٹا پھر بھی بادشاہ کے ہاں پیدا ہوتا۔ زیادہ تر کہانیاں ایسے ہی شروع ہوا کرتی تھیں، بادشاہ کبھی کبھی ظالم بھی ہوتا تھا مگر ظالم یا رحم دل، ہر بادشاہ اپنے شہزادے کی تعلیم و تربیت کا بہت اہتمام کیا کرتا تھا۔ مختلف علوم کے ماہرین محل میں شہزادے کو تعلیم دینے کی غرض سے بلائے جاتے جنہیں اتالیق کہا جاتا، یہ لوگ شہزادے

    کو فلسفہ، ریاضی، ادب، فلکیات اور طب وغیرہ کی تعلیم دیتے، صرف یہی نہیں بلکہ شہزادے کو گھڑ سواری، نیزہ بازی، تیر اندازی اور تلوار چلانے کی تربیت بھی دی جاتی مگر یہ تربیت محل سے باہر دی جاتی اور ان فنون کے استاد مختلف ہوتے۔ شہزادے کو اب ہم اُس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور تعلیم و تربیت کے اِس ماڈل پر غور کرتے ہیں جو صرف قصے کہانیوں تک محدود نہیں تھا۔ قدیم یونان میں ہمیں اِس ماڈل کی جھلک ملتی ہے، اُس زمانے کے رؤسا اپنے بچوں کو سو فسطائیوں اور یونانی فلسفیوں کے پاس بھیجا کرتے تھے جہاں وہ مختلف علوم کی تعلیم حاصل کرتے، یہی بچے بعد میں بڑے ہو کر اسٹیٹسمین اور لیڈر بنتے، جیسے ارسطو اسکندر اعظم کا اتالیق تھا۔ مسلمان علما نے بھی اسی ماڈل کو اپنایا، مسلمانوں میں ہمیں جتنے بڑے بڑے نام نظر آتے ہیں وہ سب کسی ایک شعبے کے ماہر نہیں تھے بلکہ انہوں نے مختلف علوم میں کمال حاصل کیا تھا، ان کے ہاں بھی ایسے ہی اتالیق اور فنون لطیفہ کے ماہر ہوتے تھے جو علم کے حصول کے لئے آنے والوں کو کُندن بنا دیتے تھے۔ پھر وقت بدل گیا، اتالیقی ماڈل کی جگہ مدرسوں اور اسکولوں نے لے لی، لوگوں نے اپنے بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں بھیجنا شروع کر دیا، اب بچہ پہلی جماعت میں بستہ لٹکا کر اسکول میں جاتا ہے، وہاں اسے نصابی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، ان کتابوں کا امتحان لیا جاتا ہے اور جب بچہ اسکول کالج کے تمام امتحانات پاس کر لیتا ہے تو سمجھا جاتا ہے کہ اب یہ عملی زندگی کے لئے تیار ہے۔ لگ بھگ سارے اسکول، نجی یا سرکاری، میٹرک یا او لیول، اسی ماڈل پر چلتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مہنگے پرائیویٹ اسکول اب صرف یہی دعویٰ نہیں کرتے کہ اِن کے اسکول کے بچوں اول آتے ہیں بلکہ اِن اسکولوں نے اپنے دفاتر میں اُن کے پوسٹر بھی لگا رکھے ہیں۔ یہ سب بکواس ہے۔ اسکولوں میں ڈرامے، تقاریر اور کھیلوں کے کلب وغیرہ ضرور ہیں مگر اصل مقصد وہی ہے، نصابی کتابیں پڑھنا، امتحان دینا اور بہترین نمبروں سے کامیاب ہو کر ماں باپ کا نام روشن کرنا تاکہ اچھی سی نوکری کے ساتھ خوبصورت بیوی یا تابعدار شوہر کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ آج سے دو سو سال پہلے ہوائی جہاز سے لے کر انٹر نیٹ تک کچھ بھی نہیں تھا، اگر دو سو سال پرانا کوئی شخص آج زندہ ہو کر اِس دنیا میں واپس آجائے تو اُس کے لئے ہر چیز نئی ہوگی سوائے اسکولوں کے (یہ بات کسی نے کتاب میں بھی لکھی تھی، نام یاد نہیں)، تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ عمارت، بینچ، کلاس روم، بورڈ، سب ویسے کے ویسے ملیں گے اور طریقہ تدریس بھی وہی پرانا۔ آج اگر اس دور کی ہر شے بدل چکی ہے تو اسکول کیوں نہیں بدلے، آج ہمیں کسی دفتر میں فیکس مشین تک نہیں ملتی جو دس سال پہلے تک ایک نہایت کارآمد چیز تھی مگر اسکول ویسے کے ویسے ہیں، آج سے پچیس سال پہلے اخبارات میں جیسے کام ہوتا تھا اب ویسے نہیں ہوتا مگر اسکول اسی ڈگر پر چل رہے ہیں، آج سے سو سال پہلے جس طرح جنگیں لڑی جاتی تھیں آج ان کا تصور بھی مضحکہ خیز ہے مگر اسکولوں کے طریقہ کار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ آج کا اسکول اکیسویں صدی کا اسکول لگنا چاہئے سترہویں صدی کا نہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ اسکولوں کے فرسودہ ماڈل کو تبدیل کیا جائے۔ دو طریقوں سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ پہلا یہ کہ ملک میں اتالیق تلاش کیے جائیں بالکل ویسے جیسے بادشاہ اپنے شہزادے کے لیے کرتا تھا۔ یہ کام مشکل ہے نا ممکن نہیں۔ ہر معاشرے میں اپنے اپنے علوم کے ماہرین ہوتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی اسکول یا یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہوں، ان تمام ماہرین کا ایک "پول" تیار کیا جائے جس میں گویا ہر شعبے کے اتالیق ہوں گے، اسکول صرف ایک ریسورس سینٹر کی عمارت ہو گی جہاں تیز رفتار انٹر نیٹ اور کمپیوٹر وغیرہ کی مکمل سہولت ہوگی، اتالیق کا ہر بچے سے "ورچوئل" (مجازی ) رابطہ ہوگا، بچوں کو انٹر نیٹ پر یکطرفہ لیکچر نہیں دیے جائیں گے بلکہ بچے اتالیق سے سوال جواب کر سکیں گے، بالکل ویسے جیسے افلاطون اپنے شاگردوں کو سوال جواب کے طریقے سے سچائی سے روشناس کرواتا تھا، یہ کام حکومت بھی کر سکتی ہے اور کوئی نجی ادارہ بھی، نجی ادارہ اگر کرے گا تو اس میں صرف امرا کے بچے ہی جا پائیں گے کیونکہ یہ ایک بے حد مہنگا ماڈل ہوگا، اس لئے حکومت اتالیق کا ایک پول بنا کر یہ کام غریب بچوں کیلئے کر سکتی ہے۔

    About Yasir Pirzada

    Yasir Pirzada

    Muhammad Yasir Pirzada, is a Pakistani writer and columnist based in Lahore. He is the son of famous Urdu writer Ata ul Haq Qasmi. His weekly column "Zara Hat Kay" in Daily Jang, Pakistan’s most widely circulated Urdu daily and his fortnightly column with the name "Off the beaten track" in The News, a leading English daily, addresses issues of an ordinary citizen in humorous style.

    Yasir did his graduation from Government College, Lahore and then joined The Nation, an English daily. He later acquired post-graduate degree in Political Science from University of the Punjab and then joined Civil Services of Pakistan.

    While doing his Masters from University of the Punjab, Yasir wrote some columns in daily Nawa-i-Waqt with the name of "Zara Hat Key". However, since November 2006, Yasir has been writing regular weekly column in Daily Jang; and since October 2009 a fortnightly column in the YOU Magazine of daily The News.