Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Columbus, Hero Se Zero

Columbus, Hero Se Zero

یورپ کے لیے 15 ویں صدی کی بڑی اہمیت ہے۔ اس صدی کے دوران یورپ قرون وسطیٰ کے عہد سے نکل کر جدید دور میں داخل ہوا۔ اس صدی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا جس نے نشاۃ الثانیہ کے عمل کو تیز تر کردیا۔ یورپی ملکوں کے درمیان نئی زمینوں کی تلاش اور سمندروں پر بالادستی قائم کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔

مختلف ملکوں کے مہم جو نئی دنیا کی تلاش میں پُرخطر بحری سفر پر روانہ ہوئے۔ واسکو ڈی گاما نے ہندوستان کا بحری راستہ دریافت کیا۔ کرسٹوفرکولمبس ایشیا کی تلاش میں نکلا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ ہندوستان، چین اور جاپان تک پہنچ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ ایشیا کو تلاش کرتے ہوئے بحراوقیانوس عبورکرکے دنیا کے اس حصے میں پہنچ گیا جسے آج کا براعظم امریکا کہا جاتا ہے۔

وہ اس علاقے میں نہیں پہنچا جہاں آج کاامریکا موجود ہے بلکہ وہ اس کے قریب واقع جزائر غرب الہند کے ایک جزیرے میں پہنچ گیا جو آج بہاماس میں شامل ہے۔ تاہم، امریکا کودریافت کرنے کا سہرا اس کے سرباندھا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے کہیں پہلے بحری قزاق اور غیر معروف مہم جو امریکا تک پہنچ چکے تھے۔

کرسٹوفر کولمبس 1451 میں اٹلی کے ایک شہر جنیوا میں پیدا ہوا تھا، وہ ایک غریب جولاہے کا بیٹا تھا۔ کولمبس کو کتابوں سے زیادہ بحری جہازوں سے دل چسپی تھی اور وہ نئی دنیا کی کھوج لگانے کے جنون میں مبتلا تھا۔ اس نے ذاتی طور پر جغرافیہ، تاریخ، فلکیات کا وسیع مطالعہ کرلیا تھا۔ کرسٹوفر نے اسپین کے بادشاہ فرنینڈس دوم اور ملکہ ازابیلا تک رسائی حاصل کرلی تاکہ مغرب کی جانب اپنی بحری مہم جوئی کے لیے ان کی سرپرستی اور مالی معاونت حاصل کرسکے۔

اس نے بادشاہ اور ملکہ سے وعدہ کیا کہ وہ نئے ملک دریافت کرے گا اور ان پر اسپین کا جھنڈا لہرائے گا جس سے اسپین یورپ کی ایک عظیم طاقت بن جائے گا۔ طے یہ پایا تھا کہ وہ جو مال و دولت لائے گا اس کا 10 فیصد اسے بطور انعام اور معاوضے کے طور پر ادا کیا جائے گا اور وہ جو علاقہ دریافت کرے گا اور اسے اسپین کی عملداری میں شامل کرے گا اس کا گورنر یا منتظم اعلیٰ بھی اسے بنادیا جائے گا۔ اس نے تین جہازوں کے ساتھ اگست 1492 میں پہلی مہم کا آغاز کیا اوروہ 12 اکتوبر 1492 میں بہاماس کے ایک جزیرے پر لنگر انداز ہوا۔ بعد ازاں، کولمبس کیوبا اور اس وقت کے ہسپانیولا (موجودہ ہیٹی) پہنچا اور اسے اسپین کی نو آبادی بنا لیا۔

ان ملکوں کا تعلق براعظم شمالی امریکا سے ہے جس کا آج سب سے بڑا ملک ریاست ہائے متحدہ امریکا ہے۔ اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ کرسٹوفرکولمبس نے براہ راست آج کا امریکا نہیں بلکہ وہ جزیرے دریافت کیے جو براعظم شمالی اور جنوبی امریکا کا حصہ ہیں۔ امریکا میں کولمبس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 1937 کو سرکاری طور پر ہر سال اکتوبر کے دوسرے پیر کو کولمبس ڈے منانے کا اعلان کیا گیا اور ملک کے کئی شہروں میں اس کے شاندار یادگاری مجسمے نصب کر دیے گئے۔ اس دن کو ایک قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور اسکول بھی بند رہتے ہیں۔

یہ تصویر کا محض ایک رخ ہے۔ اب یہ دیکھا جائے کہ کرسٹوفرکولمبس کا اصل کردارکیا تھا اور کیا اسے ہیرو کا درجہ دیا جانا چاہیے تھا؟ کولمبس یورپ سے چیچک، خسرہ اور انفلوائنزا جیسی بیماریاں ساتھ لایا تھا جس سے ہسپانیولا جزیرے کی مقامی آبادی جو اس کی آمد کے وقت 1492 میں 2 لاکھ 50 ہزار نفوس پر مشتمل تھی وہ 1517 میں کم ہوکر صرف 14 ہزار رہ گئی۔

کولمبس نے اسپین کے بادشاہ اور ملکہ کو یقین دلایا تھا کہ وہ نئی دنیا تلاش کرکے وہاں سے سونا اور غلام لاکر اسپین کو مالا مال کردے گا۔ کولمبس نے اپنی مہم کی مکمل روداد ایک روزنامچے میں بیان کی ہے جسے اس کے ساتھ جانے والے ایک نوجوان پادری نے قلم بند کیا تھا۔ کولمبس نے مقامی آبادیوں پرظلم وستم اور قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کیا تھا، یہ نوجوان پادری اس کا چشم دید گواہ تھا۔

اس نے اپنے اندر موجود احساس جرم کی شدت کو کم کرنے اور آنے والی نسلوں کو ان مظالم سے آگاہ کرنے کے لیے خود بھی کئی جلدوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جس کا عنوان "تاریخ اور انڈیز" تھا۔ وہ ایک جزیرے کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اب اس جزیرے میں 60 ہزار لوگ باقی رہ گئے ہیں۔

1494 سے 1508 کے درمیان جنگ، غلامی اور کان کنی کے باعث 3 لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ پہلی مہم سے واپسی کے بعد کولمبس اپنی دوسری مہم میں مکمل تیاری کے ساتھ واپس آیا۔ اس بار وہ 17 جہاز اور 1200 لوگ اور اسلحہ اپنے ساتھ لایا تھا۔

اس کے ساتھ آنے والے لوگ مختلف جزیروں پر پھیل گئے اور انھوں نے مقامی لوگوں کو پکڑکر غلام بنانا شروع کردیا۔ ایک کارروائی میں انھوں نے 1500 مردوں، عورتوں اور بچوں کو پکڑا، ان میں سے بہترین صحت رکھنے والوں کو منتخب کیا اور انھیں غلاموں کی منڈی میں نیلام کرنے کے لیے اسپین روانہ کر دیا۔ بحری سفر میں ان کے ساتھ اذیت ناک سلوک روا رکھا گیا۔ جس کی وجہ سے 200 بد نصیب افراد ہلاک ہوگئے۔ کولمبس کو سونے کی تلاش تھی۔ اس نے ہیٹی میں 14 سال سے بڑی عمرکے لوگوں کو ہر تین مہینے میں سونے کی ایک مخصوص مقدار لانے کا حکم دیا۔

اس علاقے میں سونا نہ ہونے کے برابر تھا، جو مقامی لوگ مطلوبہ مقدار میں سونا تلاش نہیں کرپاتے تھے ان کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے تھے۔ کولمبس کے لوگ مقامی لوگوں کے کاندھوں پر سوار ہوکر سفر کرتے تھے یہ لوگ نوجوان مقامی لڑکوں کے جسم کو ٹکڑوں میں کاٹ کر اپنے چاقوکی دھار جانچا کرتے تھے۔ ایک واقعہ میں ان لوگوں نے دو مقامی لڑکوں سے ان کے کبوتر چھین کر تفریحاً ان کے سرقلم کردیے۔ کولمبس نے مقامی لوگوں کی نسل کشی کی انتہا کردی تھی۔ لوگ کولمبس کے مظالم سے اتنا ڈرگئے کہ انھوں نے اپنے نوزائیدہ بچوں کو زہر دے کر خود مارنا شروع کر دیا۔ صرف 2 سال میں ہیٹی میں رہنے والے ڈھائی لاکھ انڈین ہلاک ہوگئے۔ مقامی عورتوں کو اٹھانا اور ان کو جنسی درندگی کا نشانہ بنانا ایک معمول بن گیا تھا۔

کولمبس نے براعظم امریکا اور یورپ کے درمیان غلام کی تجارت کا آغاز کیا تھا۔ بعد ازاں، یہ تجارت فروغ پاتی گئی اور لاکھوں سیاہ فام افریقی لوگوں کو غلام بنا کر امریکا لایا گیا، ان سے بد ترین جبری مشقت لی گئی، حکم عدولی پر ان کو قتل اور ایذا رسانی کا نشانہ بنایا گیا۔ امریکا میں غلامی غیر قانونی ہے لیکن سیاہ فام لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک آج بھی روا رکھا جاتا ہے۔ جارج فلوئڈ کا قتل اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اس ہلاکت کے بعد امریکا میں غلامی اور نسل پرستی کے بانی کرسٹوفرکولمبس کے یادگاری مجسموں کو ہٹانے کی مہم زور پکڑگئی ہے۔

اس مہم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کولمبس کا مجسمہ امریکا میں غلامی کے دور کی ایک نسل پرستانہ علامت ہے۔ اب تک کولمبس کے کئی مجسموں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے۔ ریاست مینی سوٹا میں ایک جلوس میں شامل لوگوں نے کولمبس کے مجسمے کے گرد رسی باندھ کر اسے زمین بوس کردیا، ایک اور واقعہ میں رچمنڈ، ورجینیا کے ایک پارک میں ایستادہ کولمبس کے مجسمے کی توڑ پھوڑکی گئی اور اسے پارک کی جھیل میں پھینک دیا گیا۔

اسی طرح بوسٹن میں موجود کولمبس کے مجسمے کو ہٹادیا گیا اس کے مجسمے کا سرتن سے جدا کرکے یہ یاد دلایا گیا تھا کہ وہ مقامی لوگوں اور غلاموں کا سر ان کے تن سے کیسے جدا کیا کرتا تھا۔ ہیوسٹن میں کولمبس کے مجسمے پر سرخ رنگ پھینک دیا گیاجو اس طرف سے کی گئی نسل کشی اور بے گناہوں کا لہوبہانے کے خلاف غم ونفرت کا ایک علامتی اظہار تھا۔

امریکا کی بہت سی ریاستوں نے اب اکتوبر میں کولمبس ڈے منانے کی بجائے "مقامی لوگوں کا دن" منانا شروع کردیا ہے۔ اس میں مینی سوٹا، الاسکا، ورمونٹ اور اوریگون شامل ہیں۔

21 ویں صدی میں ایک نیا امریکا جنم لے گا کیونکہ آج سفید فام نوجوان اپنے سیاہ فام ہم وطنوں کے ساتھ مل کر نسل پرستی کے خلاف میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ دن قریب ہے کہ جب غلامی اور نسل پرستی کی تمام علامتوں کو مٹا دیا جائے گا۔ جب ایسا ہوجائے گا تب ہی امریکا "عظیم" کہلوانے کا حقدار ہوگا۔

About Zahida Hina

Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.