کورونا وائرس نے صرف پاکستان کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ تقریباً ساری دنیا پر حملہ آور ہوا ہے۔ پاکستان بھی متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ سنگین مسئلہ یہ ہے کہ اب تک اس بیماری کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا جس کی وجہ ساری دنیا میں سخت تشویش پھیلی ہوئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وحشت ناک بیماری کے حوالے سے دنیا بھر میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور ماہرین اس وبا کی ویکسین تیار کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن تاحال اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے عرض ہے کہ ان تحقیقات کو ایک مرکز پر لایا جائے اور دنیا بھر کے منتخب ماہرین کو ایک مرکز پر جمع کیا جائے۔
پاکستان بھی کورونا سے متاثرہ ملکوں میں سے ایک ہے اور اب تک اس وحشت ناک بیماری سے متاثر ہونے والوں کی تعداد سات سو کے لگ بھگ ہوچکی ہے۔ حکومت کی طرف سے اس حوالے سے ہر ممکن احتیاطی اقدام کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام اس وبا سے خوفزدہ نہ ہوں اور حوصلے کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
دو اقدامات کی ضرورت ہے اول یہ کہ اس وبا کے پیدا ہونے کے اسباب سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ ممکنہ احتیاطی تدابیر کے حوالے سے عوام کو باخبر رکھا جائے۔ اس حوالے سے ہم مسلسل حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ چونکہ یہ بیماری ساری دنیا میں پھیل چکی ہے لہٰذا الیکٹرانک میڈیا پر اس حوالے سے ایک منظم اور مربوط مہم چلائی جائے جس میں دو باتوں پر خصوصی توجہ دلائی جائے ایک یہ کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ یہ وبا کس طرح پھیلتی ہے دوسرا یہ کہ اس وبا کو پھیلنے سے کسی طرح روکا جاسکتا ہے۔
اگر ان دو باتوں سے عوام کو بڑے پیمانے پر آگہی دی جائے تو یقینا اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، ہم مسلسل لکھ رہے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس حوالے سے اب تک کوئی منظم مہم نہیں چلائی جا رہی ہے۔ یہ بات تو بڑی واضح ہے کہ اب تک متعلقہ شعبے کے ماہرین اپنی کوششوں کے باوجود ویکسین تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ وبا بڑی پیچیدہ ہے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے، اتنی بڑی آبادی میں جہاں مختلف المزاج عوام رہتے ہیں احتیاط اور احتیاطی تدابیر کا اختیار کرنا آسان نہیں ہے، ہاں اس حوالے سے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یونین کمیٹیوں کی سطح پر ایسے مراکز قائم کیے جائیں جہاں اس وبا کے بارے میں معلومات عوام کو فراہم کی جاسکیں۔
ایک بات جو میڈیا پر کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو صرف یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ صابن سے ہاتھ دھوئیں لیکن یہ ہدایت تشنہ ہے۔ عوام کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ صابن سے ہاتھ دھونے کے کیا کیا فوائد ہیں، ہاتھ نہ دھونے کے کیا کیا نقصانات ہیں، اگر عوام کی معلومات میں ان دو باتوں کا اضافہ ہو تو عوام کی احتیاط بامعنی بھی ہوسکتی ہے اور اس میں پھیلاؤ بھی آسکتا ہے۔ آپ یہ تو بتا رہے ہیں کہ عوام یہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اگر اس میں احتیاطی تدابیر کے فائدے اور نقصان کا اضافہ کیا جائے تو یہ مشورہ زیادہ بامعنی اور وزن دار ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس حوالے سے عوام کی معلومات بہت کم ہیں۔
یہ وبا اس قدر خطرناک ہے کہ ملک کے 22کروڑ عوام کی زندگی خطرات میں گھر گئی ہے اور عوام اس حوالے سے بہت پریشان ہیں، ایسے نازک وقت میں سیاسی اختلافات کو بھلا کر قومی یکجہتی کے مظاہرے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسا نظر نہیں آرہا ہے۔ ساری دنیا کے ممالک آج منفی سیاست چھوڑ کر تعاون اور یکجہتی کی طرف آ رہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں اقتدار کی خواہش جنون کی حد تک بڑھ گئی ہے۔
ایک منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شعبہ طب کے ماہرین اس سے قبل کورونا مرض اور اس کی تباہ کاریوں سے واقف تھے؟ اگر واقف تھے اور ہیں تو اس پر تحقیق کرکے اس کا علاج کیوں دریافت نہیں کیا جاسکا؟ اگر متعلقہ شعبہ اس بیماری کی قیامت خیزی سے واقف نہ تھا تو کیا یہ اس شعبے کے ماہرین کی کمزوری تھی یا اس کی ہلاکت آفرینی منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ ان سوالوں اور ان کے جوابات کی ضرورت اس لیے محسوس کی جا رہی ہے کہ یقینا کورونا ایک معلوم بیماری ہے یہ ہوسکتا ہے کہ ماضی میں اس کی ہلاکت خیزی سے ماہرین واقف نہ ہوں یا پوری طرح واقف نہ ہوں۔ ہمارے سوالات کی اہمیت کو کورونا کی جاری ہلاکت خیزی کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ماہرین طب معلوم بیماریوں کے علاج تلاش کر رہے ہیں۔ ہاں اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ شاید ماضی میں کورونا اس قدر ہلاکت خیز نہ رہی ہو۔
دنیا میں بیماریوں اور مہلک بیماریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، آج کورونا کی تباہ کاریوں پر قابو پانے کے لیے جو اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں اگر ماضی میں اس کے علاج کی تحقیق پر اتنی بھاری رقوم خرچ کی جاتیں اور اتنی دلچسپی اور سنجیدگی سے اس کے علاج کی دریافت پر کوشش کی جاتی تو دنیا کو آج اس کی ہلاکت خیزی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔