Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Corona Vaccine Aur Qaumi Bachat

Corona Vaccine Aur Qaumi Bachat

امریکی ادارہ برائے ڈیزیز کنٹرول نے انکشاف کیا ہے کہ مکمل طور پر ویکسینیشن کرانے والے افراد کی کورونا میں مبتلا ہونے یا مرنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

یہ ان نادان لوگوں کے لیے بڑی خبر ہے جو کسی صورت ویکسین لگانے پر رضامند نہیں۔ اب مجبوراً ویکسین لگانے پر رضا مند ہوئے ہیں خاص طور پر کراچی میں جہاں عوام کا اتنا بڑا ہجوم امڈ آیا کہ ویکسینیشن سینٹر کے گیٹ ٹوٹ گئے۔ صرف اس وجہ سے کہ جن لوگوں نے اب تک ویکسینیشن نہیں کروائی ان کی سم بلاک کردی جائے گی۔

اس لیے نہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ اس کے باوجود کہ نئے ڈیلٹا ویرئینٹ نے جو بہت خطرناک اور انتہائی تیزی سے پھیلنے والا ہے پوری دنیا میں افراتفری پھیلا دی ہے۔ اب تمام صوبائی حکومتوں نے ڈنڈا پکڑ لیا ہے کہ جو لوگ ویکسین نہیں لگوائیں گے انھیں تنخواہ نہیں ملے گی، ڈیوٹی پر نہیں آنے دیا جائے گا۔ زمینی وفضائی سفر ان کے لیے ممنوع ہے۔

تاریخی سچائی ہے کہ ڈنڈے کے یار باتوں سے کہاں مانتے ہیں کہ انسانی فطرت کی ٹیڑھ ہی ایسی ہے۔ ویکسین نہ لگانے والوں کا صرف یہی کارنامہ نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر ویکسین لگوانے سے روکتے ہیں۔ ان سے بہتر تو بھارتی ریاست اترکھنڈکا سابق وزیر اعلیٰ رہا۔ مجھے اس کا بیان نہیں بھولتا جب انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس بھی ایک زندہ مخلوق ہے۔

چنانچہ اس کو بھی جینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا انسان کو۔ لیکَن ہم انسان اس کو مارنے کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ چنانچہ اس "بیچارے" کو اپنی جان بچانے کے لیے اپنی شکل بدلنا پڑتی ہے۔ بہرحال اس میں ایک لاجک تو ہے کہ ہر جاندار کو انسان کی طرح اپنی زندگی بچانے کا حق حاصل ہے۔ وہ زندگی جو اسے اﷲ تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ لیکن اگر اس لاجک کو مان لایا جائے تو زمین پر صرف وائرس اور جراثیم ہی باقی رہ جائیں گے۔ انسانوں کا یقینی خاتمہ بالخیر ہوجائے گا۔

اس ملک میں مایوسی پھیلانے والی بہت سی باتیں ہیں جسے لوگ پڑھ سن کر دکھی ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال میں خوش خبری یہ ہے کہ پاکستان نے چین کے تعاون سے ایسی ویکسین تیار کی ہے جس کی تین ڈوز مختلف قسم کے کورونا وائرس کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ دوسری خوش خبری یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک تین کروڑ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جاچکی ہے۔ ایک کروڑ افراد کو ایک مہینے میں لگائی گئی اب یہ مدت گھٹ کر 16 دن رہ گئی ہے۔ امید ہے آگے چل کر یہ مدت مزید کم ہوگی۔ شروع میں پاکستان میں ویکسین لگانے کی شرح انتہائی کم تھی۔

عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کی آبادی کو ایک فیصد بھی ویکسین نہیں لگی۔ جب کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اب تک دس فیصد آبادی کو ویکسین ضرور لگ جانی چاہیے۔ وجہ وہی ہے کہ انتہائی امیر اور انتہائی غریب ممالک کا فرق۔ غریب ممالک کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ویکسین خرید سکیں۔

وہ بے چارے منہ اٹھا کے امیر ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کی مدد کر یں۔ امیر ممالک نہ صرف اپنی 50فیصد سے زائد آبادی کو ویکسینیڈ کرچکے ہیں۔ بلکہ اپنی تیار کردہ گوری ویکسین مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں۔

کووڈ 19 کے آغاز میں سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چین پر الزام عائد کیاگیا کہ چین نے اسے وہاں لیبارٹری میں تخلیق کرکے پوری دنیا میں پھیلایا۔ یہ الزام چین پر اس شدومد سے لگایاگیا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے صحیح سمجھنے لگی۔ لیکن تازہ ترین ریسرچ کے مطابق جوحال ہی میں چین میں مکمل ہوئی ہے جس میں امریکی برطانوی آسٹریلیا کے سائنسدان شریک تھے کی طرف سے کہا گیا کہ ابھی تک ایسی کوئی شہادت نہیں ملی کہ یہ وائرس کسی لیبارٹری کا تیار کردہ ہے نہ ہی اس کا چین کے شہر ووہان سے تعلق ہے۔ وائرس کے جانوروں سے پھیلنے کا مفروضہ بھی غلط نکلا۔ سائنسی ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ یہ وائرس قدرتی طور پر سامنے آیا۔

اب ایک بہت اہم مسئلے کا ذکر کرنا ہے جس پر مجھے بہت سے ٹیلیفون آئے۔ پاکستانی عوام مختلف حوالوں سے پہلے ہی معاشی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ قومی بچت کے حوالے سے لیے گئے حکومت کے گزشتہ مہینے کے اقدام سے ان کا معاشی عدم تحفظ مزید بڑھ گیا ہے۔ حکومت نے قومی بچت اسکیموں کے ٹیکس میں نواز شریف حکومت کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ کردیا ہے۔ جب کہ گزشتہ حکومت میں منافع کی شرح بہت زیادہ تھی جس سے کم آمدنی والے افراد اپنے گھریلو اخراجات باآسانی چلا سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ان بچت اسکیموں میں 80لاکھ سے زائد افراد نے سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔

ان میں زیادہ تر ریٹائرڈ بزرگ افراد اور بیواؤں کا سرمایہ ہے جس کی مالیت ساڑھے چار ہزار ارب کے قریب ہے۔ موجودہ حکومت اس کثیر قومی سرمایہ پر شیرمادر کی طرح تصرف کررہی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ تقریباً ایک کروڑ کے قریب پاکستانی عوام نے اپنی خون پسینے کی کمائی حکومت کے پاس امانتاً رکھوائی ہے۔ لیکن حکومت اس میں مسلسل خیانت کررہی ہے۔ جب جی چاہتا ہے اس امانت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے ٹیکس میں اضافہ کردیتی ہے۔

اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض سرٹیفکیٹ پر ٹیکس کی شرح منافع سے زیادہ ہوگئی ہے۔ یعنی ریگولر انکم سر ٹیفکیٹ یہ امانت میں خیانت نہیں تو اور کیا ہے۔ وہ بھی موجودہ عمران حکومت کررہی ہے جس پر عوام کو بہت مان تھا۔ حکومت کیا چاہتی ہے کہ چھوٹی بچتوں والے اپنا سرمایہ نکلواکر نوسر بازوں فراڈیوں کے ہتھے چڑھ کر فاقوں مریں میں یا خودکشی کرلیں۔ جو بڑی بے تابی سے اپنے شکار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس ظالمانہ ٹیکس اضافے سے تقریباً 5 کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اگر ایک گھرانہ 5سے 6 افراد پرمشتمل ہو۔ ذیلی اثرات اس کے علاوہ ہیں۔ وزرات خزانہ کے اعلیٰ بابوؤں کو یہ اقدام لیتے ہوئے ذرا سا بھی خوف خدا نہ آیا کہ چھوٹی بچتوں والے غریبوں کا کیا بنے گا۔ خود تو یہ تنخواہ اور مراعات کی شکل میں کروڑوں لے رہے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف ہمارے میڈیا پرنٹ الیکٹرک دونوں کے سر پر جوں بھی نہ رینگی۔ یہ عوام کا حق ہے جو میڈیا کو اپنا فرض نبھاتے ہوئے پہلی فرصت میں اداکرنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ چھوٹی بچتوں والوں پر اس اضافہ شدہ ظالمانہ ٹیکس کو فوری طور پر نہ صرف واپس لیں بلکہ ان کے منافع میں جائز اضافہ کرکے غریب عوام کی دعائیں لیں۔ ویسے بھی وہ اپنی عدم مقبولیت کے برے درجے میں ہیں۔