پاکستان کورونا وائرس کے حوالے سے ایک بند گلی میں پھنس گیا ہے۔ کیا کرنا ہے کوئی پتہ نہیں۔ میڈیا دن رات عوام کو یہ یقین دلانے میں لگا ہوا ہے کہ اس وائرس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ دوسری صورت میں تکلیف دہ بیماری یا موت کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے گا لیکن مجال ہے کہ عوام کے کانوں پر جوں رینگ جائے۔ اُس کا ثبوت ہمارے بازار مارکیٹیں ہیں وہاں اِکا دُکا کے سوا عوام کی بیشتر تعداد نے احتیاطی تدابیر کو جوتے کی نوک پر رکھا ہوا ہے۔
22 کروڑ عوام کو پابند کرنا یا کسی نظم و ضبط میں لانا آسان کام نہیں۔ عادتیں بننے میں ایک عمر لگتی ہے اور انسان اپنی عادتوں کے غلام ہیں۔ کورونا کے ابتدا میں ایک غیرملکی ٹیلی وژن پر دکھایا گیا کہ ایک فرانسیسی شخص لاک ڈاؤن کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ گھر میں قید رہنے سے بہتر پھر موت ہے۔ ایسی زندگی کا کیا فائدہ کہ آدمی ریسٹورنٹ ہوٹل کلب نہ جا سکے۔
فوری طور پر دنیا کے انسانوں نے اسے سنجیدہ نہیں لیا اور نہ ہی احتیاطی تدابیر کو بلکہ امریکا، کینیڈا، یورپ برطانیہ میں لوگوں کی ایک تعداد نے اس کا مذاق اڑایا۔ سب سے پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے اس وائرس کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے فلو قرار دیا۔ اس کے بعد برطانوی وزیر اعظم بھی یہی کچھ کرتے رہے جب جان کے لالے پڑے تو ہوش اُن کے ٹھکانے آئے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے تو اپنی آخری سانسیں وینٹی لیٹر پر گنیں مگر بچ گئے۔
روسی صدر کا بھی ابتدا میں اس وائرس کے حوالے سے رویہ غیر سنجیدہ تھا جب تک اموات میں شدت نہ آگئی۔ برازیلین صدر بھی بعد میں اپنے عوام سے معافی مانگتے رہے اور اب اپنے عوام سے کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس کوئی معجزہ نہیں کہ اس وائرس کو ختم کر سکوں۔ یہی رویہ زندہ دل تفریح کے دل دادہ اطالوی عوام کا تھا۔ چنانچہ اٹلی کے وزیر اعظم نے بھی اس وائرس سے نمٹنے میں کوتاہی دکھائی جس کے نتیجے میں وہاں روز کے حساب سے اتنے لوگ مرنے لگے کہ تابوت ہی نایاب ہو گئے۔
اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ وہاں کی عدالت نے اٹالین عوام کی بڑی تعداد میں مرنے پر اطالوی وزیر اعظم کو طلب کر لیا ہے۔ خود اطالوی عوام کا یہ حال تھا کہ جب اموات روز کی ہزار ہزار ہونے لگیں تب جا کر انھوں نے اسے سنجیدہ لیا۔ اب پاکستانی عوام کو ہی دیکھ لیں کہ اب کہا جا رہا ہے کہ پچھلے چند روز میں اموات کی تعداد بڑھنے سے ہمارے عوام اس وائرس کو سنجیدہ لینے لگے ہیں ورنہ اب تک تو اس وائرس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہر طرح کی واہی تباہی بکی جا رہی ہے۔ مثلاً زیادہ سے زیادہ لوگ مریں گے تو زیادہ غیر ملکی امداد ملے گی۔ مسلمانوں کو تو کورونا ہو ہی نہیں سکتا۔ حالانکہ سب سے زیادہ ہر قسم کی بیماریاں مسلم دنیا میں ہی پائی جاتی ہیں جس کی وجہ غربت بھوک اور ہر طرح کی پس ماندگی ہے۔
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم دنیا کی آبادی ڈیڑھ سے پونے دو ارب ہے لیکن ان کی دنیا میں معاشی، سیاسی و عسکری اہمیت کیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے رونا آتا ہے۔ کورونا ویکسین کے لیے ہم آج بھی کافر دنیا کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں۔ بقول امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عرب بادشاہتوں کے پاس تیل کے سوا کچھ نہیں۔ آج ہم اگر پیچھے ہٹ جائیں تو یہ بادشاہتیں دو ہفتے سے زیادہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گی۔ موجودہ حالات میں جب کہ کورونا وائرس نے پاکستانی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔
کورونا کے وجود عدم وجود پر پاکستانی قوم کو ذہنی انتشار اور کنفیوژن کا شکار کرنا ملک دشمنوں کی سازش ہے۔ بھارت کا جارحانہ رویہ ہر گزرتے دن بڑھتا جا رہا ہے۔ بھارت اس وقت ہر صورت پاکستان سے جنگ چاہتا ہے تاکہ وہ آزاد کشمیر پر قبضہ کر سکے۔ معیشت کا کورونا نے بھرکس نکال دیا ہے جنگ کے لیے پیسے چاہیں۔ جب خزانہ ہی خالی ہو گا تو جنگ کتنی دیر تک لڑی جاسکے گی۔
دوسری طرف ایک عالمی مالی ادارے نے حال ہی میں دنیا کی معیشت کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران موجودہ معاشی بحران سے بڑے بحران کا دنیا کو سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کروڑوں افراد اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ چار کروڑ افراد بے روزگار صرف امریکا میں ہو چکے ہیں۔ چند دن پیشتر برطانیہ کے معاشی امور کے سربراہ نے بی بی سی کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے برطانوی معیشت 20.4 فیصد سکڑ گئی ہے۔
ہم جیسے غریب ترقی پذیر ملکوں کی معیشت ان ملکوں سے لنک ہے اگر یہ بحران کا شکار ہوں گے تو ہم جیسے ملکوں کا معاشی بحران کئی گنا ہو جائے گا کیونکہ ہم وسائل کی شدید قلت کا شکار ملکوں میں شامل ہیں۔ ہمارے قرضے اپنی جگہ موجود ہیں ان میں کمی نہیں ہوئی۔
صرف وہ موخر ہوئے ہیں۔ ہماری اور ہم جیسے سو ملکوں کی مدد اس لیے کی جارہی ہے کہ مستقبل میں ہم ان کا قرضہ اور اس پر سود ادا کرنے کے قابل ہو سکیں نہ کہ ساری رقم ہی ڈوب جائے۔ نقصان اتنا تباہ کن ہے کہ عالمی معیشت کو ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ جرمن ایئر لائنز 22 ہزار ملازمین کو جاب سے فارغ کر چکی ہے یہی حال امارات ایئر لائنز کا ہے کہ اس نے سیکڑوں پائلٹ اور ہزاروں ملازمین کو گھر بھیج دیا ہے۔
امریکی محکمہ ٹرانسپورٹیشن نے کہا ہے کہ امریکی ایئر لائنز کے پاس اپریل میں 30 لاکھ مسافر تھے جو کورونا وائرس کے بعد 96 فیصد کم ہو گئے۔ یہ طاقتور عالمی معیشتوں کا حال ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ ہم اس بحران سے نمٹنے کے لیے بھی اُن کی مدد کے محتاج ہیں۔
سیل فون: 0346-4527997