پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش تینوں کی صورت حال کورونا وائرس کے حوالے سے یکساں ہے۔ اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے کہا کہ بھارت کورونا سے متاثر ہونے والا دنیا کا بدترین ملک ہو سکتا ہے۔ وہ ملک جس کی آبادی ایک ارب 25 کروڑ ہے۔
وزیر اعظم مودی نے 24 مارچ کو دنیا کا ظالمانہ لاک ڈاؤن کیا جب وہاں کورونا سے متاثرہ افراد صرف 500 تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ اس اچانک لاک ڈاؤن سے وہ کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جریدے نے کہا کہ بوکھلاہٹ سے لگائے گئے ظالمانہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار بند ٹرانسپورٹ معطل، مزدور بے روزگار ہو گئے۔
بھارت میں لاکھوں افراد کچی آبادیوں، صنعتی علاقوں میں بغیر معاش پھنسے رہے۔ اچانک لاک ڈاؤن اور ٹرانسپورٹ معطل ہونے کی وجہ سے لوگ اس قدر پریشان ہوئے کہ پیدل ہی اپنے دور دراز دیہاتوں کی طرف چل پڑے جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ اس لاک ڈاؤن نے بھارت میں سنگین معاشی بحران پیدا کیا جس کے نتیجے میں 14 کروڑ افراد بے روزگار ہو گئے۔ مودی کی جلد بازی کے باعث بھارت 40 سال میں پہلی مرتبہ شدید کساد بازاری سے گزر رہا ہے۔ ہندوستان میں اس وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تیرہ ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق یہ تعداد جولائی کے آخر میں اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ لاک ڈاؤن کے باعث ہندوستانی معیشت مخدوش حالات سے دوچار ہے۔ شہروں سے دیہی علاقوں میں جانے والے مزدور کورونا پھیلاؤ کا ذریعہ بن گئے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے جلد بازی میں لاک ڈاؤن لگایا اور تباہ ہوئی بھارتی معیشت کو بچانے کے لیے جلد بازی میں مئی کے آخر میں لاک ڈاؤن کھول دیا۔
مودی نے بھارتی عوام کی مدد کے لیے ایک بڑے مالیاتی پیکیج کا اعلان کیا لیکن بھارت کی اتنی کثیر آبادی کے پیش نظر یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر رہا۔ بھارت کا شعبہ صحت بھی کمزور مالی وسائل کی وجہ سے اس وائرس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اوپر ٹڈل دل کے غول بھارتی معیشت اور غذائی پیداوار کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ جریدے نے ان حالات کے پیش نظر صورت حال مزید بھیانک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ جون کے آخر میں کورونا کیسز تین لاکھ تک پہنچ سکتے ہیں اور جولائی کے آخر میں یہ تعداد دس سے بارہ لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ جب کہ امپیریل کالج لندن کی ریسرچ رپورٹ کے مطابق اگست تک پاکستان میں کورونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک شدگان کی تعداد 22 سے 23 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ جب کہ اگست اور اس کے وسط میں ڈراؤنا منظر یہ ہو گا کہ پاکستان میں روزانہ ہلاکتوں کی تعداد 80 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اس کے بعد کورونا وائرس کا زور بتدریج ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔ امپریل کالج لندن کی یہی ریسرچ رپورٹ بھارت کے بارے میں پاکستان سے کہیں زیادہ ہولناک صورت حال کا نقشہ اس طرح کھینچتی ہے کہ وہاں کورونا وائرس ایک کروڑ 40 لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس تاریخ کو پاکستان میں لاک ڈاؤن ہوا اُسی تاریخ یعنی 24 مارچ کو بھارت میں بھی لاک ڈاؤن ہوا۔ پاکستان نے مئی کے دوسرے ہفتے میں لاک ڈاؤن ختم کیا تو بھارت نے بھی پاکستان کی نقل کرتے ہوئے اپنی معیشت کی زبوں حالی کے پیش نظر مئی کے آخر میں لاک ڈاؤن ختم کیا۔ بھارت ہو یا پاکستان دونوں جگہ برائے نام ہی لاک ڈاؤن رہا۔ دونوں جگہ عوام کی اکثریت نے احتیاطی تدابیر نہ ہونے کے برابر اہمیت دی اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر کیونکہ ایک ہی خطے میں رہنے والوں کا مائنڈ سیٹ بھی ایک جیسا ہے۔ اب پوری دنیا ان ملکوں کے عوام کا مذاق اڑا رہی ہے۔
اب پنجاب کو ہی دیکھ لیں جس کی آبادی پورے ملک کی آبادی کا نصف سے زائد ہے اور پنجاب میں جتنے کورونا کیسز ہیں ان کی نصف تعداد صرف لاہور میں ہے۔ یہی حال پاکستان کے بڑے شہروں کا ہے۔ ایک فرد کی بے احتیاطی درجنوں افراد میں وائرس منتقل کرنے کا سبب بنتی ہے۔ آبادی کا 20 فیصد متاثر حصہ 80 فیصد آبادی کو بیمار کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ اقدام قتل سے بڑا جرم ہے اور اس کی سزا بھی اتنی ہی ہونی چاہیے لیکن حکومت ڈر کے مارے اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر انھیں کسی بھی قسم کی سزا دینے سے قاصر ہے۔
کورونا وباء کا آغاز پچھلے سال 9 دسمبر کو چینی شہر ووہان سے ہوا۔ 20 جنوری کو امریکا میں اس وباء کا آغاز ہوا جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حماقتوں سے پورے امریکا میں خوب پھلا پھولا۔ پاکستان میں 26 فروری کو پہلا کیس سامنے آیا۔ 16 مارچ کو پہلی موت ہوئی۔ پاکستان میں پہلا لاک ڈاؤن سندھ میں 13مارچ کو لگا۔ 24 مارچ کو پنجاب اور دوسرے صوبوں میں لگا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس وباء کی شدت پوری دنیا میں اگست ستمبر میں ٹوٹ جائے گی۔ پوری طرح ختم تو اس وقت بھی نہیں ہو گی۔ پاکستان میں اس وباء کی شدت جولائی کے آخر اور اگست کے شروع میں ٹوٹ سکتی ہے۔ ہماری بقراط حکومت اگر ابتدا میں تین سے چار ہفتے کا سخت لاک ڈاؤن کر لیتی تو پاکستان بھی آج اُن ملکوں میں شامل ہوتا جو اس وباء پر کافی حد تک قابو پا چکے ہیں۔
ہماری قوم کورونا سے بچ نہیں رہی لڑ رہی ہے۔ کوچہ بازار مارکیٹوں، مالوں میں اور خالی ہاتھ لڑ رہی ہے نہ ماسک نہ فاصلہ نہ کوئی اور احتیاطی تدابیر۔ ہم نے اس وائرس سے بچنا ہے لڑنا نہیں۔ اسی میں ہمارے گھر والوں، گلی محلہ، شہر اور ملک کی بچت ہے۔ اس سے کیا خاک لڑیں گے۔ ہماری اور دنیا کی مثال وہی ہے لڑتے ہیں اور ہاتھ (ویکسین) میں تلوار بھی نہیں۔
سیل فون:0346-4527997