وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جتنا بھی وقت باقی رہ گیا ہے۔ اس میں ہمیں گورننس کی کارکردگی کو بہت آگے لے کر جانا ہے کیونکہ اب ہمارے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے کہ ہم سیکھ رہے ہیں یا ہمارے پاس تجربہ نہیں ہے۔ اب کارکردگی کا وقت آگیا ہے۔ وزراء خود پر دباؤ ڈالیں ٹارگٹ پورے کریں، کارکردگی دکھائیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ امریکا میں صدارتی انتخابات کے بعد جو بائیڈن کو ٹیم منتخب کرنے اور تیاری کے لیے ڈھائی ماہ ملے۔ اسے مکمل بریفنگ دی گئیں۔ ہمیں اس نظام پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور حکومت سنبھالنے کے لیے پورا وقت ملنا چاہیے۔ تمام شعبوں اور اداروں کے حوالے سے مکمل بریفنگ ملنی چاہیے تاکہ جب دفتر سنبھالیں تو پوری طرح پتہ ہو کہ کس ایجنڈے پر عمل درآمد کرنا ہے۔
ہمیں تو تین مہینے صرف سمجھنے میں لگ گئے۔ ہر چیز جو ہم باہر سے بیٹھ کر دیکھ رہے تھے جب حکومت ملی تو وہ بالکل مختلف تھی۔ خصوصاً کئی شعبوں میں ڈیڑھ سال تک اصل اعداد و شمار کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ کبھی وزارت سے کوئی اعداد و شمار آجاتا تھا تو ہم سمجھتے تھے کہ سب اچھا ہے پھر پتہ چلتا تھا کہ کوئی اور اعداد و شمار آگئے ہیں اور ہم اتنا اچھا نہیں کر رہے۔ کسی بھی نئی حکومت کو اس طرح اقتدار میں نہیں آنا چاہیے اس کی پوری تیاری ہونی چاہیے۔
اس کو پوری بریفنگ دینی چاہیے۔ برطانیہ میں ایک جماعت لیبر پارٹی لمبے عرصے کے بعد حکومت میں آئی تو اس کی ٹریننگ کروائی گئی۔ بیورو کریٹس نے ان کو ہر ایک شعبے کے حوالے سے بٹھا کر سمجھایا۔ 18 ویں ترمیم جس کے بارے میں اپوزیشن بہت حساس ہے، کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ابھی پورے ملک کو 18 ویں ترمیم کی پوری طرح سمجھ نہیں۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ فوڈ سیکیورٹی وفاقی حکومت کے پاس ہے لیکن اختیارات صوبائی حکومتوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ اب اگر صوبہ مرکز کے ساتھ نہیں چلتا اور اپنی الگ پالیسی بناتا ہے تو اس سے قیمتوں میں فرق آجاتا ہے یوں باقی تمام اشیاء کی قیمتوں کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
مثلاً آٹا مہنگا ہوتا ہے تو ذمے داری وفاق پر ڈال دی جاتی ہے اور سب برا بھلا وفاق کو کہہ رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ مرکز کے پاس کنٹرول ہی نہیں ہے۔ اگر ایک صوبہ گندم جاری نہیں کرتا تو وفاق قیمتوں کے فرق کو ختم ہی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔
دوسری مثال انھوں نے ماحولیات کے حوالے سے دی۔ ماحولیات جس پر ہماری زندگی اور ملکی بقا کا انحصار ہے وہ صوبوں اور وفاق میں بٹی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ ماحولیات کا کنٹرول وفاق کے پاس ہونا چاہیے تاکہ وہ یکساں اور مؤثر پالیسی بنا کر پورے ملک میں عمل درآمد کرا سکے۔ ماحولیات کی بہتری کا سب سے بڑا ذریعہ درخت اور جنگلات ہیں لیکن وفاق نے جو بلین ٹری منصوبے شروع کیے ہیں اس پر سپریم کورٹ سمیت سبھی نے شک و شبہ کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ 23 مارچ اور 14 اگست کو ہمیں یوم جنگلات منانا چاہیے۔
موسم برسات میں قدرت کی طرف سے حاصل ہونے والا انتہائی قیمتی تحفہ پانی ڈیم نہ ہونے کی صورت میں سمندر میں گر کر ضایع ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہمارے ملک کی لاکھوں ایکڑ زمین پیاسی رہ جاتی ہے چنانچہ عوام کے لیے خوراک روز بروز مہنگی اور نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ان دو قومی دنوں میں پوری قوم مل کر اپنے جوش و جذبے کا اظہار فی خاندان ایک پودا لگانے پر صرف کرے اور اس کی ایک سال حفاظت کرے تو ہمارا ملک بہت جلد ایک ہری بھری جنت میں تبدیل ہو جائے۔ ماحولیات اس وقت پوری دنیا سمیت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کا ہماری قوم کو بہت کم ادراک ہے۔
وفاق اور صوبوں کا ہر سال نام نہاد یوم ماحولیات کا دن منانا ایسا ہی ہے کہ جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھ بند کر لیتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس کو اپنی ترجیحات میں سب سے اوپر رکھ کر اسکول، کالج، یونیورسٹی ہر سطح پر جنگی مہم چلانی چاہیے۔ درخت جنگلات نہ صرف ہمیں اور ہمارے بچوں کو قحط سالی سے بچائیں گے بلکہ ہر سال خوفناک انداز میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو بھی مؤثر انداز میں کنٹرول کر سکیں گے۔ ہماری بے خبر قوم ماحولیات کی تباہی کی وجہ سے بڑی تیزی سے قیامت صغریٰ کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے جشن منانے میں مصروف ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی عمران خان کی کہتے ہیں ہمارے تقریباً سوا دو سال باقی رہ گئے ہیں۔ ہماری آیندہ کارکردگی ایسی ہونی چاہیے کہ عوام ہم سے مطمئن ہو سکیں۔ 5 سال بعد عوام فیصلہ کریں گے کہ ہم نے ان کی زندگیاں بہتر کی ہیں یا نہیں۔ وعدے پورے کیے یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب ہر وزارت کی کارکردگی کی جانچ ہو گی۔ وزارتوں کی کارکردگی کی جانچ کرنا بالکل درست اقدام ہے۔
سب سے بڑا چیلنج وزارت توانائی کا نظر آرہا ہے یہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ وزارت توانائی کے بارے میں سوچ کر مجھے کئی دفعہ رات کو نیند بھی نہیں آتی۔ بجلی کا شعبہ اتنا پیچیدہ ہے کہ مختلف چیزوں کا انضمام کرنا پڑتا ہے تاکہ ہم عوام کو ایک ایسی بجلی دے سکیں جو ان کے استطاعت میں ہو اور ساتھ ساتھ ہم گردشی قرضوں کے پہاڑ کو بھی کم کر سکیں۔ ہماری حکومت کے لیے اولین چیلنج توانائی کا ہے اس میں بھی کئی عوامل ہمارے کنٹرول میں ہیں اور کئی عوامل ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
کمزور جمہوریتوں میں سویلین حکومتوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گندم اور بڑھتے ہوئے بجلی بحران کی ایک بڑی وجہ بیورو کریسی کا سویلین حکومتوں کو غلط اعداد و شمار دینا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان نے گندم کے متوقع بحران کے پیشِ نظر بیورو کریسی کو گزشتہ اپریل میں گیارہ خطوط لکھے لیکن ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
یعنی حکومتوں کے اندر ایک مافیا ہے جو جان بوجھ کر سویلین حکومتوں کو ناکام کرنے کے لیے غلط اعداد و شمار دیتا ہے۔ یہاں سابق وزیراعظم نواز شریف یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا کہ ہمیں ایک سال تک پتہ ہی نہیں چلا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔
سویلین حکومتوں کے کمزور ہونے کی وجہ پاکستان میں ابتدا ہی سے اصل طاقت بیورو کریسی کے پاس رہی ہے جس کے ثبوت پاکستانی تاریخ میں جابجا موجود ہیں۔ اب تو پاکستانی ریاست میں مختلف مافیا نے اس خوفناک انداز میں اپنے پنجے گاڑھے ہیں کہ ان سے جان چھڑانا ناممکن سا ہو گیا ہے۔ ان مافیا کو پتہ ہے کہ ان کی بقا سویلین جمہوری حکومتوں کو کمزور رکھنے میں ہے تاکہ وہ ان کا خاتمہ نہ کر سکیں۔
پاکستان میں یہ مافیا کتنے طاقتور ہیں اس کا ایک اور ثبوت وزارت پٹرولیم کی حالیہ رپورٹ جو پبلک ہو گئی ہے۔ یہ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 2002 میں 4آئل کمپنیاں تھیں یہ شعبہ اتنا منافع بخش اور اس میں لوٹ مار اتنی ہے کہ آج ان کمپنیوں کی تعداد 66تک پہنچ گئی ہے۔ کاغذوں میں یہ کمپنی خسارے میں ہیں اور جب خسارے میں ہیں تو ٹیکس کہاں سے دیں گی۔ گزشتہ جون میں عالمی مارکیٹوں میں تیل کم ترین سطح پر آیا تو حکومت نے بھی عوام تک اس فائدے کو پہنچانے کے لیے پٹرول 70 روپے لیٹر کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سستے تیل کی آئل کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی شروع کر دی۔ ملک میں پٹرول کا بحران پیدا ہو گیا۔ حکومت کو تعریف کے بجائے گالیاں پڑنی شروع ہو گئیں۔ گندم ہو یا چینی یا پٹرول اسکینڈل یہ ان مافیاز کے کارناموں کے نمونے ہیں، جن کے ظاہر ہونے کی ابھی ابتداء ہوئی ہے۔