برطانوی اخبار دی انڈی پینڈنٹ نے وزیر اعظم عمران خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران حکومت میں پاکستان عالمی پلیئر بن کر سامنے آیا ہے۔ لکھتا ہے کہ عمران خان کو ورثے میں ناساز حالات اور ابتر معیشت ملی۔ تنقید کے باوجود بحران میں عمران کامیاب نظر آتے ہیں۔
عمران خان نے کئی اقدامات کیے جن پر وہ تنقید کے بجائے تعریف کے مستحق ہیں۔ انھوں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کر کے اعتماد جیتا۔ ابتر معیشت کے لیے سخت اقدامات اٹھانے پڑے، عالمی سطح پر جیو پولیٹیکل صورت حال پر بھی عمران نے بہترین کردار ادا کیا۔
یہ کردار پلوامہ حملے کے بعد بھی سامنے آیا جب بھارتی فضائیہ نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاک فضائیہ نے دو بھارتی طیارے مار گرائے۔ امریکا کی افغانستان میں جاری جنگ میں بھی عمران خان نے ثالثی کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ اخبار کے مطابق ماضی کی ڈرامہ بازیوں کی طرح اب پاکستان دنیامیں مذاق یا تماشا نہیں رہا۔ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے عمران خان نے کئی اقدامات کیے بدعنوانی سے پاک سیاست کا وعدہ سیاسی سطح پر مقبول ہو گیا ہے۔ امریکا افغانستان اور امریکا ایران کے درمیان ثالثی کے لیے ان کا چناؤ ان پر اسی اعتماد کا اظہار ہے۔
امریکی صدر نے ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ نریندر مودی اتنے مقبول ہیں جیسے امریکا کے معرف گلوکار اداکار ایلوس پر یسلے تھے۔ بھارتی میڈیا نے اپنی وزارت خارجہ کو مشورہ دیا ہے کہ کسی بھی ملک کے سربراہ کا موازنہ کسی ادکار یا گلو کار سے کرنا مناسب نہیں۔ گزشتہ اگست کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی صدر ٹرمپ نے نریندر مودی کے جواب نہ دینے پر کہا تھا کہ حقیقت میں ان کی انگریزی بہت اچھی ہے لیکن اس وقت وہ بات کرنا نہیں چاہتے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کے اس طرح کے عمل کو کسی بھی طرح دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ دو ممالک کے تعلقات میں سربراہوں کی دوستی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بھارتی وزیر اعظم کی نسبت صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان سے دونوں مرتبہ ہونے والی ملاقات میں نہایت مودبانہ طریقہ اپنایا اور اس مرتبہ تو انھیں اہم ترین سفارتی مشن بھی سونپا ہے جس پر خود ٹرمپ کی اپنی سیاسی زندگی کا بڑی حد تک انحصار ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر انتہائی سنگین مسئلہ ہے۔ جس کے حل کے لیے مجھ سے جو ہو سکا وہ کروں گا۔ پاکستان اور انڈیا سے بات چیت کر چکا ہوں۔ دونوں ایٹمی ملک ہیں ان کے درمیان شدید محاذ آرائی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی سے کہا ہے کہ دوستو اب مسئلہ کشمیر کو حل کرو۔ نیو یارک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں بہت مثبت رہیں۔ ان میں نتیجہ خیز گفتگو ہوئی، ہم نے کشمیر پر بات کی اور پیشکش کی کہ وہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان اور مودی دونوں نفیس آدمی اور میرے اچھے دوست ہیں۔ انھوں اختلافات ختم کرنے پر زور دیا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان معاملات انتہائی پیچیدہ ہیں، امید ہے کہ بہتر ہو جائیں گے۔
برطانیہ کی سابق حکمران جماعت لیبر پارٹی نے جس کے حالیہ سیاسی بحران کے نتیجے میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے واضع امکانات ہیں نے عالمی مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کرایا جائے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی لیبر پارٹی نے ایک قرارداد پاس کی ہے۔
جس میں کشمیر میں عالمی مداخلت اور اقوام متحدہ کی قیادت میں ریفرنڈم کی حمایت کا کہا گیا ہے۔ قرار داد میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں حالیہ اقدامات کی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ لیبر پارٹی کو واضح اور پرزور طریقے سے کشمیریوں کی حق خود اداریت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ عالمی مبصرین بھیجے جانے کی صدا بلند کرنی چاہے اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو وہاں مداخلت کے لیے کہنا چاہیے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنا چپ کا روزہ توڑ دیا ہے۔ ان کی طرف یہاں تک کہا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر او آئی سی کا مسئلہ نہیں۔ ا س نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے اور وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے اسلامی تعاون تنظیم، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو پوری آزادی دے۔ یہ مطالبہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ اجلاس کے اعلامیہ میں کیا گیا۔
میرے پیش نظر50 سے55 دن تھے، ان دنوں میں بہت کچھ ہوا۔ صورت حال ناامیدی سے امید کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن ہمارے سادہ لوح دانشوروں کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی کیونکہ وہ کسی ایجنڈے پر ہیں۔ لیکن عوام ان لوگوں کو اچھی طرح جانتے سمجھتے ہیں۔ خوش خبریاں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ امریکا نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیاں ختم کرتے ہوئے گرفتار سیاسی رہنماؤں اور تاجروں کو رہا کرے۔ پاکستان سے کشیدگی میں کمی کرے۔ امریکی معاون نائب وزیر خارجہ کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم "پرامید" ہیں کہ کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کی رہائی اور پابندیاں اٹھائے جانے پر تیزی سے کام ہو گا۔
(اور اس حوالے سے بند گلی سے نکلنے کا راستہ مودی کو بھارتی سپریم کورٹ فراہم کرے گی۔ راقم) امریکا کو کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور پابندیوں پر تحفظات ہیں۔ امریکا نائب وزیر خارجہ کے بقول امریکا چاہتا ہے کہ بھارت کشمیری مقامی سیاسی رہنماؤں سے رابطوں میں تیزی لائے اور وہاں انتخابات کے انعقاد کا وعدہ پورا کرے۔ بقول ایک دیانتدار نقاد کے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا بھارت کو کشمیر میں کرفیو ختم کرنے اور انسانی حقوق کا احترام کرنے پر زور دینا عمران خان کی آدھی فتح ہے۔
اب حالات بتدریج بہتری کی طرف جائیں گے۔ (یہ نہیں کہ سب کچھ ایک دم ٹھیک ہو جائے گا نہ کشمیر راتوں رات آزاد ہو گا ہمارے خوش فہم دانشوروں کے مطابق) خاص طور پر 7 اکتوبر کے بعد۔ اس حوالے سے اکتوبر کا آخر نومبر کا شروع نومبر کا آخر اور دسمبر کا شروع بہت اہم ہے۔
سیل فون:0346-4527997