Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Hain Talkh Bohat Banda e Mazdoor Ke Auqat

Hain Talkh Bohat Banda e Mazdoor Ke Auqat

جی ہاں! بندہ مزدور کے اوقات بہت تلخ ہیں۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بھوک سے مزدور ہی مر رہے ہیں۔ اس کا داعی تو طبقاتی نظام ہے مگر عالمی سرمایہ داری سب سے بڑی آسیب ہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف نے قرضہ جات پروگرام کی بحالی کے لیے اسے بجلی مہنگی اور ٹیکس بڑھانے سے مشروط کردیا ہے۔

یقینا جب بجلی کی قیمت بڑھے گی تو پھر ہر چیز کی قیمت میں بھی سرمایہ دار اضافہ کردے گا۔ اسی طرح جب ٹیکس لگے گا تو اس کا بالواسطہ بوجھ عوام پر پڑے گا۔ اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں بھی از خود اضافہ ہوگا۔ یہ تو رہے انسانوں کو ہڑپ کرنے والے عالمی اور ملک کے سرمایہ دار، جاگیردار۔ مگر ہمارے دانشور، مصنف، اینکر پرسنز، ادیب، شاعر، تجزیہ نگار سب ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں آکر متوسط طبقے کی بدحالی کی بات کرتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ متوسط طبقہ بھی مہنگائی کی پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے۔ مگر سب سے زیادہ متاثر محنت کش طبقہ، بے زمین کسان، مل فیکٹریوں کے مزدور، جھگیوں اور غار نما گھروں میں بسنے والے انسان ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے تجزیہ نگار اور لکھاری مزدور طبقہ، بے زمین کسان کا نام تک نہیں لیتے۔ درحقیقت متوسط طبقے کی تین پرتیں ہوتی ہیں۔ نچلا متوسط طبقہ، منجھلا متوسط طبقہ اور بالا متوسط طبقہ۔

کبھی کبھی تجزیہ نگار نچلے متوسط طبقہ کا تذکرہ تو کردیتے ہیں مگر بھولے سے بھی مزدور طبقہ (Working Class) کا نام نہیں لیتے۔ جب کہ یہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور پاکستان میں ان میں بھٹہ مزدور، پاور لومز کے مزدور، کھیت مزدور، ہوزری اور گارمنٹ مزدور، ٹیکسٹائل مزدور، صابن اور شیشہ بنانے والے مزدور، سیکیورٹی گارڈز، ریٹائرڈ فوجی سپاہی، پولیس سپاہی، پٹرول پمپ پر کام کرنے والے مزدور، کوریئر سروس کے مزدور، ترسیلات پہنچانے والے مزدور ہوٹلوں اور شادی ہالوں میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔

ان کا ایک بڑا مسئلہ ای او بی آئی کا ہے جو متذکرہ مزدوروں میں سے بیشتر کو نہیں ملتا۔ اور جن کو ملتا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایمپلائیز اولڈ ایج بینفٹس جوکہ صنعتی مزدوروں کو پنشن 60 سال عمر پوری ہونے پر دینے کے لیے بنایا گیا ہے جس کی کارکردگی کچھ عرصہ پہلے تسلی بخش تھی لیکن اب نہایت مایوس کن ہے۔

پہلے جب کسی مزدور کی عمر 60 سال کو پہنچ جاتی اور وہ ریٹائرڈ ہو جاتا تھا تو اس کے کاغذات ای او بی آئی میں جمع کرنے پر تقریباً دو ماہ کے اندر اندر اس مزدور کو پنشن کی کاپی مل جاتی تھی۔ لیکن موجودہ وقت میں مزدوروں کے ساتھ سخت ناانصافی جاری ہے حالانکہ حکومت انصاف والوں کی ہے پھر بھی بے انصافی ہو رہی ہے۔ اب جب مزدور اپنی پنشن کلیم کے کاغذات جو کہ اداروں سے بنا کر دستخط کرانے کے لیے چکر پر چکر کاٹتے ہوئے لوگ ای او بی آئی آفس میں جمع کراتے ہیں تو تقریباً ایک سال کا وقفہ ATM کارڈ ملنے اور کارروائی مکمل ہونے پر لگ جاتا ہے۔

آخر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک مزدور ریٹائرڈ ہو جائے اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی ہے دوسری مراعات بھی بند ہو جاتی ہیں اور وہ بے چارہ پنشن کے انتظار میں پورے سال تک ای او بی آئی کے دفتروں کا چکر کاٹتا رہتا ہے اور کرایہ خرچ کرتا ہے۔

انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ اس کو ایک ماہ کے اندر پنشن کارڈ جاری ہوجائے اور وہ اپنے اہل و عیال کے لیے ماہانہ پنشن پر کچھ ضروریات پوری کریں لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بعض علاقوں میں ای او بی آئی میں جب کاغذات جمع کیے جاتے ہیں تو وہ بابو صاحب مزدوروں کو کہتے ہیں کہ تین ماہ بعد معلومات کرلیں اور پھر فائل وہ جس الماری میں رکھ دیتا ہے وہ تین ماہ تک وہاں پڑی رہتی ہے۔

تین ماہ بعد جب مزدور جاتا ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ صاحب نہیں آیا ہے، وہ جب آجائیں تو پھر دستخط کروا لیں گے، ہفتہ بعد معلوم کرلیں۔ ایک ہفتہ بعد پھر جب مزدور جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ صاحب عدالت میں پیشی پر گیا ہے تم تین چار دن بعد آجاؤ۔ اس طرح پتا نہیں کتنی بار آنا جانا ہوتا ہے۔

اور جب فائل اور کاغذات پر دستخط ہو جائیں تب کاغذات دوسرے دفتر میں پہنچا دیتے ہیں تو پھر وہاں پر تقریباً 6 ماہ سے ایک سال تک لگ جاتا ہے۔ اگر اس دوران یہ مزدور خدانخواستہ فوت ہوجائے تو پھر کیا ہوگا، کم ازکم اس مزدور کا تو خیال کرنا چاہیے۔ ایک ریٹایرڈ مزدور کا انتقال ہو گیا تھا اس کی پنشن اس کی بیوی کو ٹرانسفر کرنا تھی جوکہ صرف فارم پر کرکے گزیٹڈ افسر سے دستخط کروا کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ لگا کر دفتر میں جمع کرانا اور اس کو کاپی ایشو کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس ٹرانسفر پر بھی پورے 15 ماہ لگ گئے۔

مزدوروں کا انصاف والوں سے یہ مطالبہ ہے کہ ای او بی آئی محکمے کی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور مزدوروں کی پنشن کی ادائیگی میں تاخیری حربے استعمال کرنا چھوڑ دیں۔ پنشن کے لیے مزدوروں کو بہت تنگ کیا جاتا ہے۔ حکومت ادارے کو ٹھیک کرلے۔ 1982 میں اس وقت کے صوبہ سرحد کے گورنر جنرل فضل حق (مرحوم) نے سرحد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ایک کارخانہ اس فاؤنڈیشن کو اس بنیاد پر فروخت کیا تھا کہ صوبہ سرحد کے پی کے کے سابقہ فوجیوں کا بھی فاؤنڈیشن پر حق بنتا ہے کہ ان کو روزگار کے مواقع مل جائیں۔