جدید عسکری تاریخ کے طالب علموں سے پوچھیں کہ بیسوی صدی کا سب سے عظیم جرنیل کون تھا تو غالباً سب کا ایک ہی جواب ہوگا۔ جنرل ڈگلس میکارتھر۔ امریکی تاریخ کا ایک حیرت انگیز کردار۔ عسکری ماہرین کا ماننا ہے کہ میکارتھر غیر معمولی قابلیت، بے مثال بہادری، لیڈر شپ اور Military statesmanship ْ کے حیران کن اوصاف کا مالک تھا۔
جرنیل کا بیٹا جرنیل۔ باپ اور بیٹے دونوں نے امریکا کے اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیے۔ باپ نے امریکا کی سول وار میں غیر معمولی کارنامے انجام دینے پر اور بیٹے ڈگلس میکارتھر نے دونوں عالمی جنگوں میں معجزے دکھانے پر۔ تیرہ جنگیں جیتنے والے امریکا کے مقبول ترین جرنیل میکارتھر سے میرا پہلا تعارف کئی سال پہلے امریکا کے سابق صدر نکسن کی کتاب Leaders کے ذریعے ہوا تھا۔
سابق صدر نکسن نے اپنی کتاب میں 1951 میں میکارتھر کے امریکی کانگریس کے مشترکہ سیشن سے خطاب کا احوال لکھا ہے کہ "میں نے زندگی میں ایسی متاثر کن تقریر نہیں سنی۔ درجنوں مرتبہ ارکان نے زور دار تالیاں بجا کر داد دی اور جب جنرل میکارتھرنے تقریر ختم کی تو ارکان کی آنکھیں چھلک پڑیں اور وہ پندرہ منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ ایک رکن نے کہا "ابھی ابھی میں خدا کی آواز سن رہا تھا" حقیقت یہ ہے برسوں پہلے وہ کتاب پڑھ کر میں اس تقریر اور مقررکی عظمت کا صحیح ادراک نہ کر سکا، حال ہی میں اس کے کارنامے تفصیل سے پڑھے تو حیرت زد ہ رہ گیا۔ میکارتھر جب جنرل بنا تو سب سے کم عمر تھا۔ اور جب امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بنا تو بھی وہ سب سے کم عمر تھا۔
پہلی جنگِ عظیم میں میکارتھر نے نیشنل گارڈز میں سے افسراور جوان چن کر بیالیسویں Rainbow Division کھڑی کر دی۔ جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد 1919سے 1922 تک وہ ملٹری اکیڈیمی کا سربراہ رہا اور اس کے نصاب کو جدید خطوط پر استوار کیا اور تربیت کے معیار کو بلندیوں تک پہنچا دیا۔ 1930 میں جب امریکا Great Depression کا سامنا کر رہا تھا، ڈگلس میکارتھر کو امریکی افواج کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ جنرل میکارتھر 1937 میں ریٹائر ہو گیا۔
مگر دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو امریکی صدر روز ویلٹ نے اس غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک جرنیل کو واپس بلا لیا اور 1941 میں اسے مشرقِ بعید میں امریکی افواج کا کمانڈر بنا کر بھیجا۔ جاپانیوں نے پرل ہاربر پر حملہ کیا جس سے میکارتھر کی ایئر فورس تباہ ہو گئی، 21 دسمبر کو جاپانی فوجیں لنگاین گلف میں اُتریں، میکارتھر نے روکنے کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔
اتحادی فوجوں کو فلپائن کے دارالحکومت منیلا سے پیچھے ہٹنا پڑا اور انھوں نے باٹان میں دفاعی ہیڈکواٹر بنا لیا۔ جب وہاں بھی حالات زیادہ خراب ہو گئے تو صدر روزویلٹ نے انھیں فلپائن چھوڑ کر آسٹریلیا جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو جنرل نے انکار کیا مگر صدر کے اصرار پر وہB-17 کشتی پر سوار ہو گئے مگرروانہ ہونے سے پہلے فلپائن کے عوام اور اپنے ٹروپس کو ریڈیو کے ذریعے صرف ایک لائن کا پیغام دے گئے۔ I shall return __میں واپس لَوٹوں گا۔
آسڑیلیا میں انھیں اتحادی افواج کا سپریم کمانڈر تعینا ت کیا گیا، جہاں انھوں نے چاپانیو ں کو کئی محاذوں پر شکست دی اور کئی مقبوضہ شہر واپس لیے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد دنیا نے دیکھا کہ وعدے کا پکا جرنیل نہ صرف واپس لَوٹا بلکہ فلپائن کو آزاد کرایا اور ایک ایک قیدی سے خود جا کر ملا۔ جنرل میکارتھر ہر جگہ اپنی اہلیہ اور اکلوتے بیٹے کو ساتھ رکھتے۔ وہ ہوائی حملوں میں یا توپوں کے حملوں سے بچنے کے لیے کبھی مورچوں میں نہیں چُھپے۔ امریکی فوجیوں کے بقول He was recklessly daring اُنکا اسٹاف انھیں اپنے لیے حفاظتی انتظامات کرنے پر اصرار کرتا تو جنرل کا جواب ہوتا "ابھی جرمنی ایسی گولی نہیں بنا سکا جو مجھے مار سکے"۔
اگست1945 میں جاپان پر ایٹم بم گرائے گئے تو اس کی مزاحمت کی سکت ختم ہو گئی۔ 24 اگست کوجنرل میکارتھر کو جاپان کے لیے سپریم کمانڈر آف الائیڈ پاورز SCAP)) مقررکیا گیا، تا کہ وہ جاپانی افواج کے ساتھ جنگ بندی اور سرنڈر کے تمام معاملات طے کریں۔ جاپان کے شہنشاہ ہیرو ہیٹو نے سرنڈر کا اعلان کر دیا تھا مگر ہزاروں فوجی شکست تسلیم کرنے کے لیے تیّا ر نہ تھے۔ اس پس منظر میں تما م عسکری ساتھیوں کی رائے کے برعکس میکارتھر نے جاپان کے فوجی مرکز ہو کو ہاما میں اکیلے اور غیر مسلح ہو کر جانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل نے بہت بڑا رسک لیا۔ نکسن کے بقول یہ ایک جواء تھا جس میں میکارتھر جیت گیا۔ چرچل کے بقول یہ عالمی جنگ میں انفرادی دلیری کا سب سے بڑاا قدام تھا۔
جاپانیوں کا خیال تھا کہ فاتح امریکی افواج جاپان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گی اور قتلِ عام ہو گا مگر میکارتھر نے عظیم مسلم فاتحین کی یاد تازہ کر دی۔ فاتح جنرل مفتوح حکمران ہیرو ہیٹو کے ساتھ پورے احترام کے ساتھ پیش آیا اور یوشیدا کو وزیر اعظم کے عہد ے پر برقرار رکھا۔ اب جاپان میں فاتح جنرل کا ایک اور روپ سامنے آیا۔
ملٹری اسٹرییٹجسٹ، نیشن بلڈر اور ریفارمر بن گیا۔ میکارتھر جاپان میں پانچ سال رہا اور اس دوران اس نے شکست خوردہ جاپانی قوم کا مورال بلند کیا اور اسے جمہوری بنیادوں پر ایک مستحکم سیاسی نظام دیا اور ہر ادارے کی دوررس اصلاحات کیں۔ یہاں تک کہ جاپانی اپنی دشمن فوج کے کمانڈر انچیف کو اپنا سب سے بڑا محسن اور ہیرو ماننے لگے۔ ایک بار خوراک کی کمی کے باعث جاپانی سڑکوں پر نکل آئے تو جنرل نے کہا "میں خوراک کی کمی کے باعث ایک بھی جاپانی کو مرنے نہیں دونگا"اس نے واشنگٹن تار بھیجا "send me food or bullets" امریکی حکومت نے اپنے دشمن ملک کو خوراک بھیج کر اپنے قابلِ احترام جرنیل کا وعدہ پورا کر دیا۔
25 جون 1950 کو شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔ اتحادی اور امریکی قیادت کی نظریں پھر جنرل میکارتھر کی طرف ہی گئیں اور انھیں یونائیٹڈ نیشنز کی مشترکہ افواج کا کمانڈر اِن چیف مقرر کر دیاگیا۔
جنرل نے ڈائی اچی انشورنس بلڈنگ کو اپنا ہیڈکورٹر بنا لیا اور وہاں سے شمالی کوریا کی پیش قدمی روکنے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ میکارتھر جارحانہ پالیسی کو سب سے موثّر دفاع سمجھتا تھا لہٰذا اُس نے شمالی کوریا کے خلاف بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔ میکارتھر کے پلان میں بڑے رسک اور خطرات تھے، کئی دوسرے جرنیل گومگو کی کیفیت میں تھے مگر میکارتھر پُر خطر مہمات کا عادی تھا۔
اُس نے خوفناک رسک لیا ا اور کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ یو این فورسسز نے 15 ستمبر کو آپریشن شروع کیا اور 25 دسمبر کو دارالحکومت سیول کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اب میکارتھر کی فورسسز شمالی کوریا کی فوج کو پیچھے دھکیلتے ہوئے شمالی کوریا کی حدود میں داخل ہوگئیں۔
یہ وہ مرحلہ تھا جب چین نے دھمکی دی کہ اگر امریکی افواج مزید آگے بڑھیں تو چین عملی طور پر جنگ میں شامل ہو جائیگا۔ میکارتھر نے اس دھمکی کو نظر انداز کر دیا۔ نتیجتاً چینی افواج میدان میں کود پڑیں اور انھوں نے یو این فورسسز کو جنوب کیطرف دھکیل دیا اور بالآخر انھیں واپس سیؤل آنا پڑا۔ میکارتھر پوری تیاری کے ساتھ شمالی کوریا کے خلاف چڑھائی کرنا چاہتا تھا۔ جو دراصل چین کے خلاف ہوتی، مگر امریکا کے صدر ٹرومین نے اس سے اتفاق نہ کیا۔ اس پر جنرل میکارتھر اور ٹرومین میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ جنرل نے خط لکھا کہ ٹرومین کا کوریا کے بارے میں علم محدود ہے اس لیے اس کی اپروچ ناقص ہے۔ خط کے مندرجات پبلک ہو گئے جس سے صدر کی تضحیک ہوئی۔
صدر ٹرومین نے 11 اپریل1951 کو میکارتھر کو اس کے منصب سے ہٹا دیا، جس پر امریکا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ امریکی عوام اپنے ہیرو کی توہین پر بپھر گئے۔ اُدھر جنرل میکارتھر صدر کا فیصلہ تسلیم کر کے ٹوکیو سے امریکا کے لیے روانہ ہو گیا۔ جب وہ سان فرانسسکو کے ہوائی اڈے پر اُترا تو اس کے استقبال کے لیے پورا شہر امڈ آیا۔ اس کے بعد وہ نیویارک پہنچا تو شہریوں نے اپنے عظیم ہیرو کا استقبال ایسے کیا کہ پوری امریکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ 13 اپریل کو اس عظیم جرنیل نے کانگریس سے خطاب کیا، اپنے تاریخی خطاب کے اختتام پر جب اس نے کہا کہ:
"old soldiers never die، They just fade away"
توتمام ممبران کھڑے ہو گئے اوروارفتگی اور جنون کے عالم میں اپنے عظیم جرنیل سے عقیدت اور محبّت کا اظہار کرتے رہے۔ صدر نکسن نے لکھا ہے کہ "جنرل میکارتھر بہت خوبرو قابلِ رشک صحت کے مالک تھے۔ جب اُن سے اچھّی صحت کا راز پوچھا گیا تو اُنکا جواب تھا " سہ پہر کو باقاعدگی سے قیلولہ اور شراب سے اجتناب"۔
چند روز پہلے اپنے کیڈٹ کالج کے ایک دوست (جو ریٹائرڈ جنرل ہیں ) سے گپ شپ میں جنرل میکارتھر کے صدر ٹرومین سے تنازعے کا ذکر چھڑا تو میرا دوست کہنے لگا "سویلین اتھاریٹی کو defy کرنے کے لیے میکارتھر جیسا Stature ہونا چاہیے۔ اُتنی فتوحات اور اتنی کامیابیوں کے بغیر کوئی جرنیل منتخب سو ل اتھاریٹی کو defy کرے گا تو ناکام ہو گا۔ اسی طرح سویلین کنٹرول قائم کرنے کے لیے پہلے طیب اردوان بننا پڑتا ہے، اردوان جیسے کردار، جرأت اور خدمات کے بغیر ایسی کوشش کی جائے گی توبھی ناکامی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑے گا"۔
ہمارے ہاں نہ کوئی میکارتھر ہے اور نہ ہی اردوان۔ اس لیے سب اسٹیک ہولڈرز کو چاہیے کہ ملک کی خاطر سر جوڑ لیں اور بحران کا حل نکالیں۔