Thursday, 14 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Us Ko Aate Hain Bahane Kya Kya

Us Ko Aate Hain Bahane Kya Kya

مارک ٹوائن نے سیاستدانوں اور ڈائپرز کو تبدیل کرنے کی ایک ہی وجہ بتائی ہے البتہ ہمارے زبردستی کے صدر سکندر مرزا نے لکھا کہ ناخواندہ پاکستانی گند منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھیج دیتے تھے جس کو انہیں صاف کرنا پڑتا تھا۔ ماضی میں نرسری میں صحت مند صاف ستھرے سیاستدانوں کی افزائش کا بھی تجربہ ناکام ہوا تو لانڈری کا یہ کام ایک بار پھر عوام کو ہی سونپ دیا گیا مگر عوام کی سہولت کے لئے داغ ڈھونڈنے کا کام میڈیا اور دھلائی احتساب کی لانڈری میں کی جاتی ہے۔ ہمارے ایک محترم تحقیقاتی صحافی جو پہلے آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کی سیاہ کاریوں کا سراغ لگاتے رہتے پھر نواز شریف کا نام پانامہ میں آیا تو ان کی جائیدادوں اور بیرون ملک دولت کا حساب کتاب کرنے میں بھی جتے رہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی بھی اپنے روایتی احتسابی عدسے سے جانچنے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں "سال 2018ء میں پاکستانی قوم کے قرضے اور واجب الادا رقوم 29.879کھرب روپے کے قریب تھے تب فوجی سربراہ سے لے کر عمران خاں تک سب معاشی بدحالی اور اس کے دیرپا مضر اثرات پر قوم کی معلومات میں اضافہ کرتے تھے اب 2020ء کی صورت حال سُن لیجیے۔ پاکستان کے قرضے اور مالی واجبات 41.479کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں یعنی ہم 2018ء سے لے کر اب تک 40فیصد زیادہ مقروض ہو گئے ہیں اور یہ سب نئے قرضے ہیں " ان اعداد و شمار سے اختلاف ممکن نہیں۔ البتہ زاویہ نگاہ پر سوال اٹھانے کا حق ضرور ہے۔ اب سٹیٹ بنک کی رپورٹ بھی دیکھ لیں۔ جس کے مطابق تحریک انصاف نے اپنے دور اقتدار میں 10ارب 40کروڑ ڈالر قرض لیا جبکہ 9 ارب 30کروڑ ڈالر قرض واپس کیا ہے اس لحاظ اضافہ محض1ارب 30 کروڑ بنتا ہے سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان دو اعداد و شمار میں درست کون سے ہیں؟ ۔ تو سچ یہ ہے کہ دونوں اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میاں نواز شریف 2013ء میں اقتدار میں آئے تو ڈالر 110روپے کے اوپر نیچے ہوا کرتا تھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف نے اپنے معیشت کے ارسطو وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے فرمائش کی کہ آپ کو تب مانیں جو ڈالر کے پر کاٹ دیں وزیر موصوف نے جادوگری دکھائی اور ڈالر نیچے آنا شروع ہوا یہاں تک کہ میاں نواز شریف کو اسحاق ڈار کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ بس ڈار صاحب بس۔ 87روپے سے کم نہ لے کر جائیں اس وقت وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ اگر نواز شریف چاہیں تو ڈالر کو پرویز مشرف کے دور کی سطح 67روپے سے بھی کم سطح پر لا سکتا ہوں۔ اس وقت بھی اسحاق ڈار کی جادوگری پر ماہرین معاشیات نے کہا تھا کہ حضور!آپ عالمی اداروں سے قرضے لے کر ڈالر مارکیٹ میں جھونک کر جو روپے کی قدر میں مصنوعی اضافہ کر رہے ہیں اس کی قیمت چکانی پڑے گی اور پھر 2018ء میں مسلم لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ڈالر کے بے قابو ہونے کی صورت میں چکانی بھی پڑی۔ نگران حکومت کے مختصر عرصہ میں ہی ڈالر 122روپے تک پہنچ گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے قرض کے ڈالر مارکیٹ میں جھونکنا بند کئے تو ڈالر 167روپے تک جا پہنچا۔ ہمارے محترم تحقیقاتی ماہر نے ملکی قرضوں میں 40فیصد اضافے کا جو انکشاف کیا ہے یقینا وہ بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ اس عرصہ میں روپے کی قدر 40فیصد کے لگ بھگ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں 35فیصد تک کم ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے محترم دوست سے بھی یہ حقیقت پوشیدہ نہ ہو گی کہ 40فیصد اضافہ نئے قرضوں میں نہیں بلکہ روپے کی قدر میں اضافہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تحقیقاتی رپورٹ کے اعداد و شمار تو درست ہیں صرف فرق زاویہ نگاہ کا ہے۔ میتا پسو رام نے کہا ہے:

آرزو میری وہی ہے لیکن

اس کو آتے ہیں بہانے کیا کیا

اس میں دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت میں بے روزگاری مہنگائی کی وجہ سے عوام کی امید مایوسی میں بدل رہی ہے۔ مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس قسم کے زاویہ نگاہ کا فرق مزید ابہام اور بحرانوں کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ حالیہ آٹے کے بحران کو ہی لے لیجیے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ایک منظم انداز میں ایک گروہ نے بحران کی کیفیت پیدا کر دی یہاں تک کہ سرکاری آٹے کے ٹرک گاہکوں کے انتظار میں گلی محلوں میں شام تک کھڑے رہے مگر کوئی خریدار نہ ہوتا لیکن آٹے کے بحران سے سیاسی بحران نے جنم لیا۔ پہلے تحریک انصاف کے اپنے اراکین پھر اتحادی بپھر گئے۔ باعث حیرت تو یہ تھا کہ ناراضگی بھی باجماعت تھی اگر کوئی ایک جماعت تحفظات کا اظہار کرتی تو سازش کا گماں بھی نہ ہوتا مگر یہاں تو سب کے سب اتحادی منہ پھیر کر بیٹھ گئے کہ اٹل اجنبی کا شعر مصداق آتا تھا:

پتوں کو چھوڑ دیتا ہے اکثر خزاں کے وقت

خود غرضی ہی کچھ ایسی یہاں ہر شجر میں ہے

کوئی وجہ نہ تھی کہ اتحادی بیساکھیوں کے چھن جانے کے بعد عمران خان اقتدار کی کرسی سے منہ کے بل گرتے۔ مگر باخبر ذرائع یہ انکشاف کر رہے ہیں کہ اس بار عمران کی کرسی کو سہارا کسی سلیکٹر یا ایمپائر کے بجائے خود میاں نواز شریف نے دیا ہے۔ شاید میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری مارک ٹوائن کی سیاستدانوں اور ڈائپرز کے تبدیل کرنے کی بات سے تو متفق ہوں مگر سکندر مرزا کی اسمبلیوں سے عوام کے بجائے کسی اور کے گند صاف کرنے پر راضی نہیں۔ اب عمران خاں کے پاس موقع ہے کہ وہ سازشوں سے بے نیاز ہو کر عوام کی بہبود کے لئے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کریں اور اپنی کارکردگی سے اہلیت ثابت کریں اب تک کی کارکردگی تو عباس تابش کے شعر کے مصداق ہے:

مصروف ہیں کچھ اتنے کہ ہم کار محبت

آغاز تو کر لیتے ہیں جاری نہیں رکھتے