ژاں پال سارتر بیسویں صدی کا ایک عظیم فلسفی، ادیب، ناول نگار، ڈرامہ نگار اور نقاد تھا، وہ وجودیت اور مظہریت پر یقین رکھتا تھا، بیسویں صدی کے فلسفیوں میں وہ فرانسیسی سماجی محرکات اور مارکس ازم کا عظیم علم بردار تھا۔ اس نے فرانسیسی سماجیات، تنقید اور پوسٹ کالونیل نظریات پہ انتہائی وسیع کام کیا۔ سارتر نے ساری زندگی اپنے لیے گھر بنایا اور نہ ہی شادی کی، سارتر نے اپنی ساری کتابیں ہوٹل اور کیفے میں بیٹھ کر لکھیں، ہوٹل"فلور"اس کا پسندیدہ ہوٹل تھا، کچھ لوگ اس کے فلسفہ جدیدیت کو"کافی ہائوس فلسفہ" کہتے ہیں۔
سارتر نے ناول لکھے، ڈرامے لکھے، بائیو گرافی لکھی، فلسفے پر کتابیں لکھیں۔ اس کی یہ ساری تحریریں اس کے اس فلسفے کے گرد گھومتی ہیں، جس کا وہ موجد تھا۔ 1945ء میں سارتر کے لیے لیژاں دآنر(عسکری اور معاشرتی شعبہ جات میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر تفویض کردہ فرانس کا عظیم ترین اعزاز)کے لیے نامزد کیا گیا تھا، انھوں نے حکومت کے ساتھ خیر سگالی جذبات پر مبنی تعلقات کے باوجود اس اعزاز سے انکار کر دیاتھا، 1964ء میں سارتر کے لیے ادب کے نوبل پرائز کا اعلان ہوا، سارتر نے اسے بھی وصول کرنے سے انکار کر دیا اور انھوں نے سویڈن کے اخبار کو لکھے اپنے ایک خط میں وجوہات بیان کیں، یہ خط سویڈش زبان میں تھا، اس کا فرانسیسی ترجمہ لی فیگارواور لی موند نامی اخبارات میں شائع ہوا۔ یہ خط 24 اکتوبر 1964ء کو لی فیگارو میں چھپا، آپ ان وجوہات کو پڑھیں جن کی وجہ سے سارتر نے ہر سرکاری اعزاز ٹھکرایا۔
سارتر خط میں لکھتا ہے: "میرے اس رویے کی بنیادایک مصنف کے کام کے متعلق میرے نکتہ نگاہ پر ہے، کسی بھی سماجی، سیاسی اور ادبی نظریے کے حامل ایک مصنف کو صرف اپنے ہی ذرائع و اسباب سے استفادہ کرنا چاہیے یعنی اپنا قلم اور اپنی تحریر۔ اس پر نچھاور کیے جانے والے تمام اعزازات اس کے قاری پر ایسا اثر ڈالتے ہیں جو میرے خیال میں ناقابلِ قبول ہے۔
میرے نزدیک ژاں پال سارتر اور ژاں پال سارتر نوبل انعام یافتہ میں بہت فرق ہے۔ جو ادیب یا مصنف اس طرز کا اعزاز وصول کرتا ہے وہ خود کو یہ اعزاز دینے والے ادارے یا انجمن سے منسوب کر لیتا ہے، وینزویلاکے کسانوں کے لیے میری حمایت صرف میری ذات تک محدود ہے جبکہ نوبل انعام یافتہ ژاں پال سارتر اگر اس احتجاجی تحریک کی حمایت کرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ نوبل انعام کو بطور ادارہ بھی اس میں ملوث کر لیتا ہے"۔
سارتر کا یہ خط بہت طویل ہے جس میں انھوں نے انتہائی وضاحت سے ذکر کیا کہ یہ اعزاز کن کن کو ملنا چاہیے تھا اور کیوں نہیں ملا۔ انھوں نے ایوارڈ میں انتہائی اہم پہلو کی جانب اشارہ کیا، اگر کوئی مصنف یا ادیب کسی سرکاری ادارے یا تنظیم سے ایوارڈ وصول کرتا ہے تو وہ دانستہ یا غیر دانستہ اس ادارے یا انجمن کے ساتھ منسوب ہو جاتا ہے اور کسی بھی ادیب کو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ سرکاری اعزازات ہوں یا کسی اہم ادارے کی طرف سے دیے جانے والے تمغے، ان کی کہانی ہمیشہ گنجلک رہی، نوبل انعام سے لے کر آج تک، سرکاری اعزازات حاصل کرنے والوں میں زیادہ تر ایسے لوگ پائے گئے جو سرکار کے ہم نوا تھے یا پھر سرکاری شخصیات سے تعلقات کی بنیاد پر ایسے اعزازات کے حق دار ٹھہرائے گئے۔
سارترکا نظریہ ہے کہ کسی بھی ادیب یا مصنف کو کسی ادارے یا سرکار سے وابستہ اس لیے بھی نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جو لکھتا ہے، وہ اسی سے بغاوت کیسے کر سکتا ہے؟ ایک ادیب اور شاعر کا کام سماجی انتشارپر لکھنا ہے، اسے ان پہلوئوں پر کھل کر تنقید کرنی ہوتی ہے جن سے ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی گئی، ایک قلم کار بغاوت اور مزاحمت کی کہانی لکھ رہا ہوتا ہے، وہ معاشرتی جبر کا نوحہ لکھتا ہے اور اگر ایک ادیب یا مصنف سرکاری اعزاز کے لیے ہاتھ پائوں مارنے لگے تو سمجھ جائیں کہ وہ سماج کا نوحہ نہیں بلکہ سرکار کا قصیدہ لکھ رہا ہے۔
اردو و انگریزی کے اہم ترین نقاد ناصر عباس نیر لکھتے ہیں: "کوئی ادیب اگر سرکاری اعزاز کے لیے لکھتا ہے یا اس کی آرزو دل میں پالتا ہے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے کہ وہ اس"طاقت"کی سند چاہتا ہے جس کے غیر منصفانہ اقدامات کو اسے چیلنج کرنا چاہیے۔ ادیب کو سند کی اگر خواہش ہو بھی تو اسے مستند ادیبوں یا عوام کی طرف دیکھنا چاہیے جو اس کے اصل قاری ہوتے ہیں، ادب سے متعلق یہ بالکل سادہ خیال ہے"۔
ہمارے ہاں سرکاری اعزازات کی تقسیم یا بندر بانٹ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہر حکومت یا ادارہ ان لوگوں کو نوازتا ہے جو ان کے " سپوکس پرسن "کا کردار ادا کرتے ہیں، کیا اعزاز یا چند پیسوں کے لیے کسی ادیب، قلم کار یا صحافی کو کسی سیاسی جماعت یا ادارے کا" سپوکس پرسن" بننا چاہیے؟ کیا ادیب کا کام حکومتوں کے غیر منصفانہ کاموں کو بھی سند عطا کرنا ہے؟ کیا ادیب یا مصنف طاقت کی سند چاہتا ہے یا طاقت کا حصول؟
میں نہ تو سرکاری اعزازات کے خلاف ہوں اور نہ ہی ان ادیبوں کو جو ان اعزازات کو ہتھیانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہیں، میں تو سارتر کے نظریے کی حمایت کرتا ہوں کہ ایک ادیب، مصنف، قلم کار کوغیر جانبدار ہونا چاہیے، اس کی سب سے بڑی سند اور اعزاز اس کے قاری ہوتے ہیں، یہی اس کا کل سرمایہ ہونا چاہیے۔
سیاسی و عسکری حکومتوں نے ہمیشہ ذاتی مفادات کو سامنے رکھا، ان حکومتوں کے لیے عوام کا درد کبھی بھی اہم نہیں رہا، اشرافیہ اور طاقت کے سہارے بننے والی حکومتیں ایک غریب کا درد کیسے سمجھ سکتی ہیں؟ پاکستانی اداروں کی اشرافیہ نے کبھی سوچا کہ ایک عام آدمی زندگی کے روز و شب کیسے گزار رہا ہے؟ اگران اداروں، اشرافیہ یا سرکار کی طرف سے ملنے والے اعزازات اور عہدے قلم کار اور صحافی کی زبان بندی کے لیے دیے جائیں تو ادیب کو سوچنا چاہیے کہ میرے قاری پر کیا گزر رہی ہے۔
ادب کا سنجیدہ قاری اپنے پسندیدہ مصنف سے صرف یہی چاہتا ہے کہ وہ عام آدمی کا نوحہ لکھے، اشرافیہ یا طاقت کا قصیدہ نہیں۔ سارتر کا نوبل انعام ٹھکرانا اور اس پر ایک تفصیلی خط لکھنا، مقصد ایک ہی تھا کہ وہ کسی ادیب یا مصنف سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ کسی ادارے، سرکار یا انجمن سے وابستہ ہو بلکہ ایک قلم کار کو اپنے لکھے پر آزاد ہونا چاہیے، یہی آزادی اس سے بڑا ادب تخلیق کروا سکتی ہے۔