اس وقت دنیا کی ہر قوم جمہوریت کی خواہاں ہے، وہ قومیں جنھوں نے کسی نہ کسی طرح جمہوری طرزِ سیاست کو تسلیم کیا، اسے اپنے ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کی، وہ بھی اس بات کو تسلیم کر چکی ہیں کہ وہ جمہوری نظام جو عوام کے اعتماد پر کھڑا ہوتا ہے، وہ تاحال دنیا کے کسی ملک میں موجود نہیں ہے۔ وہ قومیں جنھیں یہ دعویٰ ہے کہ جمہوریت کی اصل علمبردار ہم ہیں، حقیقت میں وہ بھی جمہوریت کی آڑ میں آمریت کو فروغ دے رہی ہیں۔
جمہوری ہونا یا بننے کا دعویٰ کرنا، دو الگ نظام فکر ہیں۔ جمہوریت کا عام مفہوم جس پر اہلِ علم متفق ہیں، یہ ہے کہ حکومت عوام کی ہو اور عوام کے لیے ہو، حکومت کی باگ ڈور نہ کسی طاقتور شخص کے ہاتھ میں ہونی چاہیے اور نہ ہی کسی طاقتور ادارے کے پاس، بلکہ جمہوری ملکوں میں طاقت کا مرکز و محور عوام ہوتے ہیں، بد قسمتی سے جن ممالک یا قوموں میں جمہوریت پر باآواز بلند تبادلہ خیال کیا جاتا ہے، ان ملکوں میں بھی جمہوری نظام فکر ناپید ہے۔
عوام کی طرف سے منتخب کردہ نمائندے اسمبلیوں میں پہنچتے ہی عوام سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، عوام کا دکھ اور عوام کی رائے ان کے لیے بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہ بحث اپنی جگہ اہم ہے کہ جو نمائندے منتخب ہو کر قانون ساز اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، انھیں منتخب کون کرتا ہے؟ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر، تمام ملکوں کا یہ بنیادی مسئلہ رہا ہے کہ جس ممبر کے نام پر رائے دہندہ متفق ہوتے ہیں، وہ اسمبلی سے باہر جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ تاحال معاملہ حل طلب ہے۔
اسلام نے جو نظامِ سیاست دیا، وہ بھی ایک خاص انداز کی جمہوریت ہے۔ وہ نظام جس میں امیر خلافت مسلمانوں کی رضامندی سے منتخب ہوتا تھا، انتظامی معاملات میں وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا تھا لیکن اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگرانی ہوتی تھی، وہ شرعی حدود کے باہر قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ امیر خلافت اپنے معاملات عوام کے مشورے سے چلاتا تھا۔
مغرب میں جب زندگی متحرک ہوئی تو شاہی اور جاگیرداری نظام جو برسوں سے چلتا آ رہا تھا، اس کے خلاف سب سے پہلا احتجاج تاجروں اور سرمایہ داروں نے کیا، انگلستان کی پہلی پارلیمانی حکومت بھی شاہی اور جاگیرداری نظام کی کشمکش کا نتیجہ تھی۔ انگلستان کی پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کی شمولیت نہیں تھی، جاگیرداروں اور طاقتوروں کی ایک مجلس شوریٰ تھی جو نظام کو چلاتی تھی۔
یورپ کے بعد اگر امریکی جمہوری نظام کو دیکھیں تو وہاں بھی سرمایہ دار طاقتور رہا، پریس جیسا طاقتور ادارہ بھی سرمایہ دار کے پاس تھا، کروڑوں روپے کے پارٹی فنڈ ہوتے تھے، اپنی مرضی کے امیدواروں کو کامیاب کرنے کے لیے ہر قسم کے جائز و ناجائز طریقے استعمال کیے جاتے تھے، یہ نام نہاد جمہوری طرزِ فکر آج سے نہیں، صدیوں سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں میں رائج ہے۔ علمی استعداد یا اخلاقی بلندی اور حق گوئی کی بنیاد پر کسی شخص کا پارلیمنٹ میں جانا ایک ناممکن سی بات ہے۔ اس پس منظر کے بعد آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال کیوں جمہوریت کے خواہش مند تھے، علامہ کے ذہن میں جمہوریت کا وہ نقشہ ہے۔
مغربی جمہوری نظام میں خرابی کی بہت سی صورتیں موجود تھیں، ہٹلر کی نازیت، مسولینی کے فاشزم نے نسلی تفریق کو پروان چڑھایا اور جمہوریت نے آمریت کی چادر اوڑھ لی۔ روس نے مغربی جمہوریت کے خلاف بغاوت کی اور محنت کشوں کی حمایت میں ایک آمرانہ نظام قائم کیا، اس نے بہت سے بت توڑے لیکن انسانوں کی آزادی سلب کرنے اور مادیت کو دین بنانے کی وجہ سے وہ خود مردم خور دیوتا بن گئی۔
علامہ کو افسوس ہے کہ اشتراکیت نے گوکہ نظم و نسق کو مقصود حیات بنایا مگر انسانیت کے رموز نہ سمجھ سکی، یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت بھی ایک وقت میں نوع انسان کے لیے آفت بن گئی۔ یہاں علامہ اشتراکیت کے تحت آنے والے معاشی انقلاب سے بہرحال خوش نظر آتے ہیں، علامہ خوش ہیں کہ محنت کشوں نے شاہی اور سرمایہ داری نظام کا خاتمہ کیا اور کلیسا کی طاقت پر بھی ضرب لگائی۔
اشتراکی کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت ادھوری تھی، ہم نے اس کو کمال تک پہنچایا، علامہ کہتے ہیں تمہاری جمہوریت بھی انسانیت کے بنیادی جوہر اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے حاضر پرستی اور مادہ پرستی کے سبب ادھوری ہے۔ ایسا جمہوری نظام جہاں خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی تھیں، علامہ کو ایسا نظام فکر مشرق و مغرب میں کہیں نظر نہیں آتا۔
علامہ نے اس جمہوری نظام کے خلاف کھل کر لکھا جو نظام آمریت کے پردے میں عوام کے حقوق کو سلب کر رہا تھا، ایسا نظام سیاست جس نے اشرافیہ کی پشت پناہی کی اور عام آدمی کا گلا بھی دبایا اور آواز بھی۔ علامہ اسی لیے مغربی جمہوریت کے اس طریق کار کے مخالف ہیں جس کی وجہ سے قوم کے عاقل افراد اسمبلیوں میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ایسا طریق کار جس میں ووٹ ایسے جاگیرداروں کو ملتے ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے، طاقت اور سرمائے کی بنیاد پر قانون ساز اسمبلیوں اور طاقتور اداروں تک پہنچ جانا، علامہ کے نزدیک کسی بھی نظام سیاست کی تباہی کی دلیل ہے۔
علامہ کاہی نظریہ ہے کہ "عصا نہ ہو توکلیمی ہے کار بے بنیاد"، اگر کوئی کلیم پیدا بھی ہو تو اس کے پاس عصا کہاں سے آئے گا، عصا تو طاقتور کے ہاتھ میں ہے اور اس طاقت سے یا تو ہٹلر یامسولینی پیدا ہوتے ہیں، یا ایک دوسرے کی گردن مارنے والے آمر۔
نوٹ: اقبال اکادمی لاہورکے پلیٹ فارم سے منعقدہ "دو روزہ علامہ اقبال بین الاقوامی کانفرنس" میں پڑھے گئے ریسرچ پیپر کا ملخص۔