انارکلی کا "کتاب بازار" کھول دیا گیا، یہ ایک اچھی خبر ہے، چند روز قبل ایل ڈی اے (لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی)نے دھاوا بول کر اس بازار کو تہس نہس کر دیا تھا، اس ناقابلِ برداشت کاروائی سے کتاب اور قاری کی تذلیل کی گئی جس کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید احتجاج دیکھا گیا۔
ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کتاب کلچر ختم ہوتا جا رہا ہے، دیجیٹل عہد نے کتاب کا قاری کم کر دیا ہے، کتب خانے بھی اور کتب بازار اب شا پنگ مالز اور مارکیٹوں میں بدلتے جا رہے ہیں، نوجوان کتاب پڑھنے کی بجائے سوشل میڈیا ایپس کے ساتھ وابست ہو گئے ہیں، ایسے میں کتاب کا قاری اور خریدار ختم ہوگیا ہے۔ یہ باتیں کسی حد تک تو درست ہو سکتی ہیں مگر مکمل طور پر ایسا بالکل نہیں ہے، کتاب کا قاری کتاب کی ہارڈ کاپی سے دیجیٹل بک سٹور پر شفٹ ضرور ہوا ہے مگر اس سے کتب بینی کے رجحان میں کمی نہیں آئی۔
کتاب پہلے کی طرح خریدی بھی جا رہی ہے اور پڑھی بھی، اس کی عملی مثال دیکھنی ہو تو آپ انارکلی کتاب بازار کا رخ کریں، یہ بازار گزشتہ کئی دہائیوں سے مال روڈ کے ساتھ سروس روڈ(پاک ٹی ہاؤس کے عقب میں)لگ رہا ہے، اس کتاب بازار کی اہمیت پاک ٹی ہاوس اور ملحقہ مال روڈ سے دو چند ہو جاتی ہے۔ چند روز قبل حکومتی احکامات کے مطابق ایل ڈی اے نے اس بازار پر دھاوا بولا، تزئین و آرائش کے نام پر اولڈ بکس بیچنے والوں کو تذلیل کا نشانہ بنایا گیا، انھیں دھمکیاں دی گئیں، کتابوں کو ضبط کرنے کا کہا گیا۔
یہ تذلیل اور ظلم صرف پرانی کتابیں بیچنے والوں کے ساتھ نہیں کیا گیا بلکہ کتاب سے وابستہ ہر اس فرد کی تذلیل تھی جو اس مادی زندگی میں بھی کتاب سے جڑا ہوا ہے، یہ دنیا جسے عالمی گاؤں کہا جاتا ہے، اس میں ڈیجیٹل ایرا سے فوائد بھی ملے اور نقصانات بھی، فوائد شاید زیادہ ہوں مگر جیسے ڈیجیٹل دنیا نے ہمیں اپنی اقدار اور رسم و رواج سے دور کیا ہے، وہ ناقابل بیان ظلم ہے۔ برادر سعودؔ عثمانی نے کہا تھا"یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی"، کیا واقعی ایسا ہے، کیا کتاب ختم ہو جائے گی یا پھر کتاب کا قاری؟
ڈیجیٹل ایرا نے ہماری نئی نسل کو اگرچہ ڈیجیٹل بک سے جوڑ دیا ہے مگر محبانِ کتب جانتے ہیں کہ ہارڈ کاپی میں کتاب پڑھنے کا جو مزا ہے، وہ ڈیجیٹل بک میں کہاں۔ راقم نے بھی ایک آدھ بار کوشش کی کہ کیوں نہ ڈیجیٹل ثمرات سے فائدہ اٹھایا جائے مگر سچ پوچھیں تو آن لائن کتاب یا اخبار، دس منٹ سے زیادہ نہیں پڑھ سکا، یہ ایک ادنی قاری کا حال ہے تو سنجیدہ قارئین ہارڈ کاپی کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں، میرا ماننا ہے کہ ہارڈ کاپی پر کتاب سمجھ نہ بھی آئے تواس کا لمس ہی اتنا بابرکت ہوتا ہے کہ وہ آپ جتنی دیر کتاب پکڑے رکھتے ہیں، وہ آپ کی روح کو روشن اور سرشار کر رہی ہوتی ہے۔
جون ایلیا نے کہا تھا: "میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں "، یہی حال ادب و تاریخ اور تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والوں کا ہوتا ہے، ان کی زندگیاں اور کمرے کتابوں سے بھرے رہتے ہیں، انارکلی کتاب بازار جیسی جگہیں ایسے لوگوں کے لیے کسی بھی جنت سے کم نہیں ہوتے، ان بازاروں کو بند کرنے کی بجائے لاہور کے مختلف ایریاز میں ایسے جگہیں مختص ہونی چاہیں جہاں ہفتے کے ساتوں دن، یہ کتاب میلہ لگنا چاہیے۔ اگر لاہور کی ہر دوسری گلی میں لنڈا بازار لگ سکتا ہے، ہر دوسری گلی میں دہی بھلے، نان چنے اور فاسٹ فوڑدز کی ریڑھیاں اور بازار لگ سکتے ہیں تو کتاب بازار سے کیسی پریشانی ہے، کیا سرکارو ہ دروازہ بھی بند کرنا چاہتی ہے جس سے عام آدمی باشعور ہو رہا ہے؟
کتاب کو ہم معاشرے کا آئینہ بھی کہہ سکتے ہیں، اس سے ہم انسانوں کی زندگیوں اور معاشرے کے خدوخال کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ایک ادیب معاشرے کو باشعور بنا رہا ہوتا ہے تو کتاب بیچنے والے اس شعور کی راہ ہموار کر رہے ہوتے ہیں، ادیب یا مصنف کا لکھا ہم تک کیسے پہنچتا ہے، پبلشرز اور کتب بازاروں کے ذریعے۔
ایک صحت مند معاشرہ اسی صورت ممکن ہے کہ وہاں ادب، تاریخ، تہذیب اور ثقافت پر لکھی جانے والی کتاب پڑھی جائیں، کتاب لکھنے والوں کی طرح کتاب بیچنے والوں کو بھی عزت و احترام سے نوازا جائے، کتب فروش اگر چاہتے تو اس کے علاوہ بھی کوئی بزنس کر سکتے تھے مگر انھوں نے ایک ایسے شعبے کا انتخاب کیا جس میں اگرچہ آمدنی کم ہے مگر اس سے ان کو روحانی تسکین مل رہی ہے، وہ معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
کتاب کا سنجیدہ قاری ہمیشہ امن، اخوت اور برداشت کی بات کرے گا، اس کے اندر شدت نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ کسی طرح کی انتہا پسندانہ کاروائیوں کا حصہ ہوگا اور یاد رکھیں وہ معاشرہ متشدد بن جاتا ہے جہاں کتاب کلچر کا فقدان ہوتا ہے، وہ معاشرے عدم برداشت اور بے راہ روی پر چل پڑتا ہے جس معاشرے میں کتاب مہنگی اور بندوق سستی کر دی جاتی ہے لہٰذا خدارا! کتب کلچر کو ختم مت کریں۔
حکومت کے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے، وہ پرانی اور نئی کتب بیچنے والوں سے اپیل کرے کہ ہم آپ کو لاہور کے مختلف ایریاز میں چھ بڑی جگہیں مہیا کرتے ہیں، آپ ہفتے کے باقی چھے دن ان جگہوں پربھی کتاب بازار لگائیں، لوگوں کو سستی اور معیاری کتب فراہم کریں اورحکومت آپ کو مکمل سپورٹ کرے گی، اتوار کا دن انارکلی کے لیے ہی مختص رکھا جائے، یوں کتاب بینی کے فقدان کا مسئلہ بھی ختم ہو جائے گا اور ان لوگوں کو سستی کتاب خریدنے کا موقع مل جائے گا جو نئی کتب مہنگے داموں نہیں خرید سکتے، اس کام میں کوئی دقت بھی نہیں ہے، لاہور میں جگہیں بھی موجود ہیں اور درجنوں پارکس اور خالی گراؤنڈز بھی۔
انارکلی کے کتاب بازار کی اہمیت کئی حوالوں سے اہم ہے لہٰذا اس بازار کو ختم کرنے کا خیال بھی گناہ کبیرہ ہے، حکومت جو اپنی میعاد پوری کرنے کے لیے پہلے ہی ہاتھ پاؤں مار رہی ہے، اسے کتابوں سے محبت کرنے والوں کی نفرت سے بچنا چاہیے، یہ لوگ اندر سے شفاف ہوتے ہیں، معاشرے کو آئیڈیل دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں کتاب سے محبت اپنی جانوں سے بڑھ کر ہوتی ہے، ایسے لوگ صرف محبت کے لیے بنتے ہیں، ان پر ظلم یا ان کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے۔