Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Commerce College Moong Ki Yaden

Commerce College Moong Ki Yaden

میٹرک کے بعد گورنمنٹ کامرس کالج مونگ میں داخلہ لیا تو گائوں سے شہر جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا، کالج میرے گائوں سے پینتیس کلو میٹر دور تھا، لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کرنا کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ کالج میں داخلے کے بعد ہوا۔ کامرس سے مجھے کوئی دل چسپی نہیں تھی، ہوا یوں کہ رسول کالج یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے ڈپلومے میں داخلے کے لیے کوشش کی، میرٹ میں میرا نام سیلف فنانس میں آیا اور وہ بھی شام کی کلاسز میں، مجھے شام تو کیا دن کی کلاسز میں بھی کوئی دل چسپی نہیں تھی، ان دنوں مجھ پر شاعری اور صحافت کا بھوت سوار تھا لہٰذا میں کالج میں داخلہ صرف اس لیے لینا چاہتا تھا کہ اسی بہانے شہر جانے کا موقع مل جائے گا اور وہاں کی ادبی و صحافتی تنظیموں سے رابطے استوار ہو جائیں گے۔ کامرس کالج کے مارننگ پروگرام میں داخلہ ملا تو ہنسی خوشی فیس جمع کروا دی، یہ تو بعد میں اندازہ ہوا کہ گائوں سے دو گاڑیاں بدل کر کالج جانا کتنا مشکل کام ہے۔

کامرس میں داخلے کے بعد معلوم ہوا کہ اکائونٹنگ، میتھ اور کمپیوٹر پڑھنا کتنا مشکل کام ہے، کالج جاتا تو اردوپڑھنے تھا مگر اکثر اوقات یہ کلاس بھی ضائع ہو جاتی کیوں کہ اردو کی کلاس پہلی ہوتی تھی اور مجھے گائوں سے پینتیس کلومیٹر سفر کرکے جانا ہوتا تھا، کالج پہنچتے پہلے دو لیکچر گزر چکے ہوتے تھے۔ کالج میں زیادہ وقت دوستوں کے ساتھ کرکٹ گرائونڈ میں گزرتا تھا، کالج میں طالب علموں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی کیوں کہ کالج شہر سے بہت دور ایک غیر گنجان آباد علاقے میں بنایا گیا تھا، شہر میں سرکاری زمینیں ہونے کے باوجود دور افتادہ گائوں میں کالج بنانے کی وجہ میری سمجھ سے بالاترتھی۔

اول تو اس کالج میں داخلوں کا رجحان کم تھا اور اگر بچے یہاں داخل ہو بھی جاتے تو دور ہونے کی وجہ حاضری کی شرح کم رہتی۔ کالج میں کینٹین بھی نہیں تھی، ایک صاحب چائے کا کھوکھا لگاتے تھے(جو اکثر بند ہوتا)، اس کے پاس بسکٹ کے چند پیکٹ پڑے ہوتے تھے، ہماری سب سے بڑی عیاشی یہی تھی کہ ہم ایک ایک کپ چائے پی لیں یا پھر بسکٹ پر گزارا کریں، ہمارے کلاس فیلو لنچ بکس ساتھ لاتے تھے، نزدیک سے آنے والے دوست چائے بھی گھر سے لاتے تھے تاکہ ہنگامی حالات سے نمٹا جا سکے۔

کالج کی تعلیمی سرگرمیوں سے عدم دل چسپی کے باعث زیادہ وقت اخبار کے دفتر گزرتا جہاں وحید گجن سے دوستی ہوگئی۔ وحید گجن سے میری دوستی اس لیے بھی گہری ہوگئی کہ وہ ایک بہترین میوزک کمپوزر اور گلوکار تھا، اخبار دفتر میں سب ایڈیٹر کی نوکری کرتا تھا، وہ خبریں کمپوز کرتے ہوئے گانے بھی کمپوز کر رہا ہوتا، ہم سب دوست وحید گجن کی صحبت بھرپور انجوائے کرتے تھے۔

میں کالج کے بعد اخبار دفتر پہنچتا تو وحید گجن میرا منتظر ہوتا، میں ایک سسٹم آن کرتا اور کالم کمپوز کرنا شروع کر دیتا، وحید گجن میرے جملوں کی درستی کرتے ہوئے دنیا جہان کی کہانیاں سناتا، اس کے پاس شعروں کا انتخاب بھی بہت کمال تھا۔ ایک دن مجھے کہنے لگا کہ پانچ وارڈ میں ایک استاد شاعر رہتے ہیں حکیم ربط عثمانی، ان کی محفل میں جایا کرو، وہاں بہت اہم قلم کار بیٹھتے ہیں۔ ایک دن وحید گجن مجھے لے کر حکیم صاحب کے پاس پہنچ گیا اور یوں میں پانچ وارڈ کی اس ادبی بیٹھک کا مستقل ممبر بن گیا جہاں درجنوں شاعر بیٹھا کرتے۔

کالج جانا بہت کم ہوگیا، گائوں سے شہر آتا تو زیادہ وقت پانچ وارڈ میں حکیم صاحب کے مطب پر گزرتا یا پھر اخبار کے دفتر۔ کالم بھی چھپنا شروع ہو گئے، قلم کاروں کے انٹرویوز بھی شروع کر دیے جو اخبار کے ادبی صفحے پر چھپتے تھے، حکیم صاحب سے شعری مشاورت بھی شروع کر دی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے کالج بہت پیچھے رہ گیا اور میری دوسری سرگرمیاں بہت آگے نکل گئیں، سال بعد کالج کے پہلے سال کا رزلٹ آیا تو میں ناکام طالب علموں میں سرفہرست تھا۔

کالج کو خیر بار کہنا ناگزیر ہو چکا تھا مگر شہر جانا بند نہ کیا، ادبی و صحافتی سرگرمیوں میں مگن رہا، ادبی تنظیم بنائی، مشاعرے کروائے، نشستوں کا آغاز کیا، مختلف شہروں میں مشاعرے پڑھنا شروع کر دیے، کالم تواتر سے چھپنے لگے، ادبی صفحے کے لیے کئی یادگار انٹریوز کیے، آتشِ شکم بجھانے کے لیے پرائیوٹ اکیڈمیوں اور سکولوں میں پڑھانا شروع کر دیا، اس دوران تعلیمی سلسلہ پرائیوٹ جاری رکھا۔

گورنمنٹ کامرس کالج مونگ، منڈی بہاء الدین کی یادیں بہت اداس کر دینے والی ہیں، میں کچھ روز قبل کالج کے پاس سے گزرا تو سوچا اندر جائوں، ان کلاس رومز کو دیکھوں جہاں سولہ سال پہلے بیٹھا کرتا تھا، وہ کرکٹ گرائونڈ، لائبریری اور کمپیوٹر لیب، کینٹین کا وہ کھوکھا بھی دیکھنا چاہتا تھا جہاں سے دس روپے کا کپ چائے کا ملتا تھا مگر شاید اب پہلے جیسا کچھ نہیں ہوگا۔ وہ اساتذہ کرام بھی اب نہیں ہوں گے جن کی باتوں سے خوشبو آتی تھی، ادب کی، دوستی کی، اخلاص کی اور محبت کی۔ سب بدل چکا ہوگا۔ اب وہا ں نئے طالب علم ہوں گے، نئے استاد ہوں گے، نیا عملہ ہوگا، ہم کسی کو کیا تعارف کروائیں کہ ہم ایک سال یہاں رہے اور ناکام لوٹ گئے۔

میں نے میٹرک کے بعد انجینئرنگ کا ڈپلوما بھی کرنا چاہا اور کامرس کا ڈپلوما بھی، میں دونوں میں ناکام ہوگیا۔ کیوں کہ خدا نے میرے لیے اس سے بہتر راستے کا انتخاب کر رکھا تھا، مجھے بطور استاد اور قلم کار اپنا کردار ادا کرنا تھا لہٰذا نہ میں انجینئر بن سکا اور نہ بینکر، میں ایک قلم کار بن گیا اور ایک مدرس۔ میں خدا کی اس رضا پر خوش ہوں کیوں کہ اس نے مجھے میری صلاحیتوں کے مطابق بہترنوازا۔