Sunday, 24 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Election Ya Selection?

Election Ya Selection?

آج جب 2023ء کا اہم ترین الیکشن ہونے جا رہا ہے تو یہ سوال بہت اہم ہے کہ یہ الیکشن کیسے ہوں گے؟ اس حوالے سے ہمارے پاس دو راستے تو بہرحال موجود ہیں۔ اگر تو یہ انتخابات محض چند لوگوں اور شخصیات کو نوازنے کے لیے کروائے جا رہے ہیں تو پھر الیکشن پر ملکی سرمایہ ضائع کرنے کی بجائے قرعہ اندازی کر لینا زیادہ بہتر رہے گا، دبئی پلان کو عملی جامہ پہنانے کا بہترین راستہ بھی یہی ہے کہ مل بیٹھ کر ایک کابینہ بنا لی جائے، اس پر جن لوگوں کو لانا ہے انھیں بلامقابلہ منتخب کروا لیا جائے، وزارت عظمیٰ کے لیے پرچیاں ڈال لی جائیں یا پھر اڑھائی اڑھائی سال دو پارٹیوں کو دے دیے جائیں، تحریک عدمِ اعتماد سب سے شفاف راستہ ہے کسی بھی جمہوری پارٹی کو گھر بھیجنے کا، یہ راستہ زیادہ بہتر ہے، دوسرے راستے سے۔

دوسرا راستہ شفاف انتخابات کا ہے، ہم جمہوری رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خوف سے باہر نکلیں کہ فلاں کو واپس آنا چاہیے یا نہیں، ہمیں ایک ایسا شفاف نظام متعارف کروانا ہوگا جس پر سوال نہ اٹھایا جا سکے، ہمیں انتخابات کے لیے ایسے راستوں کا تعین کرنا ہوگا جس کے بعد ایک مکمل جمہوری حکومت قائم کی جا سکے، ایسا نظام متعارف کروایا جا سکتا ہے جس سے انتخابات میں دھاندلی کے امکانات کم سے کم ہوں۔ ہم بی آر ٹی کا سسٹم بٹھانے کی بجائے ایک متحرک اور نیاسسٹم بھی لانچ کر سکتے ہیں اور یہ کوئی اتنا مشکل کام بھی نہیں۔ ہمیں شکست کے خوف سے باہر نکل کر ملکی اداروں اور جماعتوں کی ساکھ اور وقار کو مجروح ہونے سے بچانے کے لیے الیکشن کے نظام اور طریقہ کار کو ایڈوانس کرنا ہوگا۔

ہمیں سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کی بجائے انھیں مقابلہ کرنے کی اجازت دینی ہوگی، اگر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پرکرپشن چارجز ہیں تو مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی سمیت 13 اتحادی جماعتوں کا سیاسی دامن بھی شفاف نہیں لہٰذا ہمیں سیاسی نظام کی شفافیت کے لیے اپنی اپنی اناؤں کو قربان کرنا ہوگا۔ اگر عمران خان اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے رہے تو نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور میں پورے دعوے سے کہتا ہوں کہ جنرل انتخابات کے بعد جو بھی حکومت وجود میں آئے گی، وہ دھاندلی اور امپورٹڈ شپ کے الزامات سے بچ نہیں سکتی۔

ایسا کیوں ہے؟ کیوں کہ ہم نے 75 برسوں میں یہی کیا اور ہم اگلے 75 برس بھی یہی کرتے رہے ہیں گے، ہم جب تک ملکی اداروں اور لوگوں کو اپنی اناؤں سے اوپر نہیں رکھیں گے، اس ملک میں یہی کھیل کھیلا جاتا رہے گا۔ یہاں ہر پانچ سال بعد انتخابات توہوں گے مگر حکومتیں کبھی مدت پوری نہیں کریں گے، کبھی رجیم چینج اور تحریک عدمِ اعتماد، کبھی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے بعد حکومتیں وقت سے پہلے ہی گھر جاتی رہیں گے۔ ادارے جب تک اپنی حدود کا تعین نہیں کریں گے، اس ملک میں الیکشن کی جگہ سلیکشن ہوتی رہے گی، یہاں انتخابات ہمیشہ دھاندلی زدہ ہوں گے اور یہاں حکومتیں ہمیشہ صفائیاں دیتی رہیں گے۔

سیاسی جماعتوں کو رجیم چینج کی بجائے چارٹر آف ڈیموکریسی کرنے کی ضرورت ہے جو یہ نہیں کریں گے، یہ لوگ بیٹھ کر چند پوائنٹس پر متفق ہو جائیں، یہ ایک دوسرے کو انکار کرنے کی روش سے نکلیں اور اپنے مخالفین کو تسلیم کرنے کی کوشش کریں، اداروں کی ہر اس مداخلت کو ختم کریں جو جمہوری نظام پر اثر انداز ہو رہی ہے، ہر وہ کھیل روکا جائے جس نے اس ملک اور اس کے اداروں کو کھوکھلا کیا، ہر اس کہانی کا اختتام کیا جائے جس نے جمہوریت کا گلا گھونٹ کر آمریت کا راستہ ہموار کیا۔

اگر ہم ایسا کوئی میثاقِ جمہوریت نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں الیکشن کی زحمت نہیں کرنی چاہیے، ہمیں سلیکشن کا طریقہ کار متعارف کروانا چاہیے، ہر جماعت اور سیاست دان اپنی باریاں لے اور پھر فیملی سمیت لندن، دبئی، اسٹریلیا یا سویٹرزلینڈ شفٹ ہو جائے، یہی طریقہ میرے خیال سے بہتر رہے گا۔ جنوری سے اب تک، پندرہ ہزار ڈاکٹرز، پندرہ ہزار انجینئرز اور تیرہ ہزار سے زائد آئی ٹی ماہرین ملک چھوڑ گئے، یہ ملک سے گئے نہیں بلکہ نکالے گئے ہیں، ان لوگوں کے پاس یہاں روزگار اور نوکریاں ہوتی تو یہ کبھی سسٹم سے نفرت نہ کرتے، یہ نفرت اس اشرافیہ نے سکھائی جنس نے یہاں جمہوریت کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا، اپنی اناؤں اور پسند نا پسند کی بنیاد پر حکومتیں بنوانے والوں نے سسٹم کو کس قدر مفلوج کر دیا ہے، شاید وہ خود بھی نہیں جانتے۔

الیکشن ہو یا سلیکشن، عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں، عوام دو قت کی روٹی مانگ رہے ہیں اور اگر وہ بھی نہیں ملتی تو پھر آپ انتخاب سے حکومت لائیں یا رجیم چینج سے، عوام الناس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔