حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کے نومنتخب امیر ہیں، آپ ایک شفاف اور جموری عمل سے اس اہم منصب تک پہنچے، آپ کی سادگی، راست بازی اور دلیری کا ایک زمانہ مداح ہے۔ مجھے کراچی پریس کلب کے پنڈال میں ہونے والا 2017ء کا ایک مشاعرہ یاد آ گیا، یہ مشاعرہ جسارت کے یومِ تاسیس پر برادر اجمل سراج نے سجایا تھا، لاہور سے ڈاکٹر تیمور حسن تیمور اور راقم شریک تھے۔ مشاعرہ شروع ہوا تو ایک نوجوان انتہائی خاموشی سے پنڈال میں داخل ہوا اور اسٹیج کے بالکل سامنے زمین پر بیٹھ گیا، میرے ساتھ بیٹھے ایک دوست نے کہا یہ حافظ نعیم الرحمن ہیں، جماعت اسلامی کے ینگ لیڈر۔
میں نے حافظ صاحب کا نام سن رکھا تھا مگر ملاقات پہلی تھی۔ نظامت کے فرائض سرانجام دینے والے دوست نے حافظ نعیم الرحمن کو دو سے تین مرتبہ گزارش کی کہ آپ اسٹیج پر تشریف لائیں مگر انہوں نے زمین پر بیٹھنے کو ترجیح دی۔ مشاعرے کے بعد میں حاٖفظ صاحب کے پاس گیا، اپنا تعارف کرایا اورپنڈال سے نکل آیا، یہ واقعہ میرے دماغ میں کہیں نقش ہوگیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کی سیاست میں حافظ کا نام چمکنے لگا، آپ کے دبنگ لہجے، سیاسی حکمت عملی اور سادگی نے آپ کو نوجوانوں کا مقبول لیڈر بنا دیا۔
جماعت اسلامی جب سیاسی حوالے سے پیچھے کی جانب سفر کر رہی تھی تو ہمیں سوشل میڈیا پر ایک ہی آواز اور چہرہ دکھائی دیتا اور وہ حافظ نعیم الرحمن کا تھا۔ جماعت اسلامی تو اپنی جگہ، ہم نے نون لیگ، تحریک انصاف اور ق لیگ کے نوجوانوں کے منہ سے بھی یہ دعا نکلتی دیکھی کہ جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کو دے دیں، وہ اسے نئی زندگی دیں گی۔ بس پھر ہم نے دیکھا کہ جماعتی اراکین نے ان پر اعتماد کیا اور آج وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔
حافظ صاحب نے پہلی مرتبہ لاہور کے صحافیوں سے ملاقات کی، اس پریس میٹ آپ کا مقصد اپنا سیاسی بیانیہ واضح کرنا تھا تاکہ جماعت کے حوالے سے کسی بھی طرح کی کنفیوژن باقی نہ رہے۔ اس میٹ آپ میں راقم نے حافظ صاحب سے صرف تین سوال کیے، میں ان تینوں سوالات کو یہاں باردگر ڈسکس کرنا چاہتا ہوں۔
میرا پہلا سوال موجودہ سیاسی تناظر میں بہت اہم تھا کہ کہا جا رہا ہے عمران خان سے مذاکرات کامیاب ہو رہے ہیں اور وہ دو سے اڑھائی ماہ کے اندر جیل سے رہا ہو جائیں گے، ایسے میں جماعت اسلامی کا موقف کیا ہوگا، جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے عمران خان کو سپورٹ کریں گے یا پھر علیحدہ سیاسی جدوجہد جاری رہے گی؟ حافظ صاحب نے یہاں معاملہ فارم پینتالیس اور سینتالیس کی طرف موڑ دیا، ان کا کہا تھا کہ" فارم پینتالیس کے مطابق جس کی بھی حکومت ہوگی ہم اسے سپورٹ کریں گے"۔
میرا دوسرا سوال" پروفیشنل پے اسکیل "کے حوالے سے تھا، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پروفیشنل پے اسکیل کے نام پر چند طاقتور طبقوں کو نوازنے کا ایک قانونی جواز گھڑا گیا ہے، یہ کھلم کھلا نوجوانوں کے حق پر ڈاکہ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس قانون کے تحت کن طبقوں کو فائدہ ہوگا، ریٹائرڈ بیوروکریٹس، ججز اور ملٹری آفیسرز کے لیے ایک ایسا جواز فارم کیا گیا جس کی کسی بھی طرح سے حمایت ممکن نہیں۔ اس قانون کے تحت ان ریٹائرڈ قوتوں کو نوازا جائے گا جن سے بڑے پیمانے پر سہولتیں مقصود ہوں گی۔
آپ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ایک ریٹائرڈ افسر پینسٹھ سال کی عمر کے بعد بھی پانچ سے بیس لاکھ تک تنخواہ پہ سرکاری ملازم رہ سکتا ہے، کیا اس سے ان ساٹھ فیصد نوجوانوں کے حق پر ڈاکہ نہیں ڈالا گیا، ان لاکھوں نوجوانوں کا کیا قصور ہے جن کے پاس ڈگریاں ہیں مگر نوکریاں نہیں ہیں، پروفیشنل پے اسکیل کے تحت جن سیٹوں پر من پسند ہستیوں کو نوازا جا رہا ہے، کیا ان عہدوں کے لیے ملک بھر میں کوئی ایک نوجوان بھی اہل نہیں ہے؟ کیا عجب تماشا ہے کہ پارلیمان میں بیٹھا اشرافیہ، طاقتور اداروں میں بیٹھی قوتوں نے اپنی سہولت اور نسلوں کے نوازنے کے لیے نت نئے قوانین بنائے اور دوسری جانب ایک متوسط طبقے کا نوجوان خود کشی کر رہا ہے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے بعد بھی نوکری سے محروم ہے، کیا یہ ظلم کا نظام نہیں؟
میرا تیسرا سوال فریڈم آف اسپیچ پہ تھا یعنی آزادیِ اظہارِ رائے۔ ایک قلم کار اور صحافی جب سیاسی جماعتوں کے حق میں بولتا ہے تو وہ محب وطن اور وفادار کہلاتا ہے اور جب یہی قلم کار اور صحافی اشرافیہ کی کرپشن بے نقاب کرے، طاقتور طبقوں کے مظالم بیان کرے تو ہم اسے غدار اور بے وفا کہہ کر سزا سنا دیتے ہیں، یہ دوغلا رویہ کیوں؟ سیاسی جماعتوں کو بہرحال سوچنا ہوگا کہ صحافی کی آواز دبانا سب سے بڑا جرم ہے۔
میں نے حافظ نعیم الرحمن سے پوچھا کہ جماعت اسلامی اس حوالے سے باقاعدہ ایک تحریک شروع کرے کہ کسی بھی صحافی یا قلم کار کو نہ تو لاپتہ کیا جائے اور نہ ہی انھیں سیاسی قیدی بنایا جائے۔ آپ صحافی کے نکتہ نظر سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اسے بھی سیاست دانوں کی طرح ٹریٹ کرنا شروع کر دیں۔ پاکستان میں جب جب صحافیوں کو اٹھایا گیا یا انھیں مقدمات میں گھسیٹا گیا، مخالف سیاسی جماعتوں نے جشن منایا جب کہ اس رویہ کی مخالفت ہونی چاہیے تھی۔
جماعت اسلامی میں حافظ نعیم الرحمن، تبدیلی کا استعارہ ہیں، انھیں چاہیے کہ اپنی سادگی کو برقرار رکھتے ہوئے اخبار نویسوں اور صحافیوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کریں تاکہ اس اہم ترین طبقے کو طاقتور اشرافیہ کے شر سے محفوظ رکھا جا سکے۔ حافظ صاحب نے تینوں سوالوں کے جواب انتہائی محتاط انداز میں دیے، امید کرتا ہوں کہ وہ ایسے دیگر مسائل پر بھی سیاسی حکمت عملی بنائیں گے اور نوجوانوں کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔