فیصل آباد سے شائع ہونے والے اہم ترین ادبی جریدے"نقاط"کاخصوصی نمبر موصول ہوا، ڈاکٹر قاسم یعقوب کی ادارت میں شائع ہونے والے اس جریدے کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ نئے اور بنیادی مباحث کو چھیڑا، مکالمے کی دم توڑتی روایت کونئی زندگی بخشی، زبان و ادب کے نئے ٹرینڈز کو اپنے قاری تک پہنچایا، سماجی بے گانگی کے شکار غیر تخلیقی معاشرے کو بنیادی مسائل سے نبردآزما ہونے کا ہنر سکھایا۔
"نقاط"کا ہر شمارہ کسی نہ کسی خاص موضوع پر نامور محققین اور ناقدین کے مضامین سے مزین ہوتا ہے، شعری و نثری فن پاروں سے لے کر عالمی ادب کے تراجم تک، اس جریدہ نے نئے ادب کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ میں ایک عرصے سے "نقاط"کا مستقل قاری ہوں، اس میں چھپنے والے مضامین اور مباحث میرے لیے ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہوئے ہیں، میں نے ہر مرتبہ اس شمارے سے کچھ نہ کچھ نیا سیکھا۔ اس مرتبہ بھی تازہ شمارہ موصول ہوا تو پیشانی پر درج ذیلی عنوان "ہمارے سماج کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟"
دیکھ کر دلی مسرت ہوئی کہ کوئی تو ہے جو سماج کے بنیادی مسائل پر بات کرنے کی ہمت کر رہا ہے۔ حبس اور گھٹن کے ماحول میں سماج پر مکالمے کی فضا ہموار کرنا، سماج سے وابستہ ان بنیادی مباحث پر قاری سے ہم کلام ہوناجن سے ہمارا قلم کار اپنا رشتہ توڑ چکا، جہاد ہے۔ "نقاط"کا ادارتی بورڈ (ڈاکٹر قاسم یعقوب، فیاض ندیم، عرفان حیدر)لائقِ تحسین ہے کہ اس نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی نئے موضوع پر خاص نمبر شائع کیا، نامور ادیبوں، صحافیوں اور دانش وروں سے سماج کے بنیادی مسائل کی نشان دہی کروائی ہے کیوں کہ قلم کار اور دانش ور ہی معاشرے کی حقیقی آنکھ ہوتے ہیں۔
شمارے میں سب سے پہلا اور بنیادی نوعیت کا مضمون صاحبِ طرز نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر کاہے، انھوں نے "سماج کے بنیادی مسئلے کا مسئلہ"جیسے اہم ترین موضوع پر اپنی دانش مندانہ آرا پیش کیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول "جسے ہم سماج کا بنیادی مسئلہ کہتے ہیں، وہ مختلف لوگوں کے لیے مختلف حالات میں مختلف ہوتا ہے۔۔ یعنی ایک وقت میں اگر شدت پسندی یا دہشت گردی ہمارا بڑا مسئلہ ہے تو ممکن ہے دوسرے وقت میں سماج کسی دوسرے بڑے مسئلے سے دو چار ہو"۔ ان کے خیال میں" سماج کا سب سے بڑا مسئلہ سوالات نہ اٹھا سکنا ہے"۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں، اس ذہنی طور پر پس ماندہ سماج کا سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ یہاں طاقت ور لوگوں سے سوال کرنا گناہِ عظیم ہے، ہماری بدبختی کہ یہاں ہر اس شخص کی آواز دبائی گئی جو بولتا تھا، سوال کرتا تھا، مکالمے کی فضا سازگار بنانے کا خواہش مند تھا۔
ہمارے پالیسی سازوں نے سماجی خدوخال کو مسخ کرنے میں انتہائی غلیظ کردار کیا، انھوں نے ذاتی مفادات کی جنگ میں ملکی مفاد دائو پر لگا دیا، سماج سے بگاڑ ختم کرنے والوں نے ہی سماج کو گہری کھائی میں پھینک دیا، درست وقت میں درست مسئلے کی نشان دہی کرنا ہی سماج سدھار تحریکوں اور لوگوں کا کام ہے، ایسے عناصر کا قلع قمع انتہائی ضروری ہے جنھوں نے سماج کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا۔ اصلاح کی آڑ میں تخریب کاری کو فروغ دیا اور عوام الناس کو خوف کے چنگل سے آزاد کروانے کی بجائے ان سے سوال کرنے کا حق چھین لیا۔
گزشتہ چھہتر سال میں پاکستانی سماج کا قبلہ درست کرنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں، بے سود رہیں، یہ سماج کبھی مذہبی شدت پسندی کی آگ میں جلتا رہا اور کبھی صوبائی و لسانی تعصب کی بنیاد پر لڑی جانے والی جنگوں کا حصہ بنا۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں نے ہی عام آدمی کا استحصال کیا، طاقت وروں نے پوری منصوبہ بندی سے سماجی شعور کے تمام راستے بند کر دیے، خوف کی فضا میں ایسی نسل تیار کی گئی جس کے پاس کوئی ویژن تھا نہ خواب، بنجر آنکھوں کا نوحہ لکھنے والوں کو بھی نیست و نابود کردیا گیا، طاقت ور کے خوف کو چیلنج کرنے والے اپنی آواز تک کھو بیٹھے، یہ ہے میرے وطنِ عزیز کی چھہتر سالہ داستان، ایسے کرب ناک ماحول میں سماج کے بنیادی مسئلے پر بات کرنا ناگزیر ہو چکا تھا۔
میں"نقاط"کا تازہ شمارہ پڑھتے ہوئے کئی بار آبدیدہ ہوگیا، میں اس درد کو بیان کرنے سے قاصر ہوں جس سے میں گزشتہ دو سال سے گزر رہا ہوں، ہمارے ناخدائوں اور تونگر طاقتوں نے سماج کو اس حد تک اپاہج بنا دیا ہے کہ اس کے پاس بھیک مانگنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ بیرونی مداخلت کا شور ڈالنے والوں نے اندرونی مداخلت کو جائز تصور کر لیا اور ایسے میں ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔
اگر آپ سماج کی حقیقی تصویر دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو "نقاط"کا تازہ شمار ضرور پڑھنا چاہیے، اس میں موجود ان مسائل پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے جن کی وجہ سے معاشرہ اس درجہ الجھنوں کا شکار ہے۔ ذہنی پسماندگی سے لے کر انتہا پسندی، دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی تک، سیاسی جنگ و جدل سے لے کر معیشت، زراعت اور ثقافت تک ہمارے سماج کو درپیش چینلجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں کس طرح کالائحہ عمل بنانا ہوگا، یہ شمارہ رہنمائی کرے گا۔
ہمارے قلم کاروں اور دانش وروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بیٹھے مفکرین و مدرسین کو بھی ایک مرتبہ سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ یہ سماج جس خوف ناک دور سے گزر رہا ہے اور اسے جس طرح کے چینلجز کا سامنا ہے، ان کے حل کے لیے ہم کیسی نسل تیار کر ہے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ نصاب کی تکمیل کی دوڑ میں ہم اپنے بچوں کو زندگی کے بنیادی مسائل اور مباحث سے بے گانہ کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہے تو پھر ہم ایک قابلِ رحم قوم ہیں۔
میں بارِگر ادارتی پینل کا ممنون ہوں، کتابی دنیا کے ارسلان رضا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہمیشہ اچھی کتابوں سے نوازتے ہیں، یہ تربیت کا انتہائی عمدہ پہلو ہے کہ ہم اپنی نسلوں تک کیسی کتاب منتقل کر رہے ہیں، کتاب ہی معاشرے کے مزاج کا تعین کرتی ہے۔