Thursday, 21 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Jamhuriat Ko Derail Kis Ne Kya?

Jamhuriat Ko Derail Kis Ne Kya?

شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر اعظم اور سینئر سیاست دان ہیں، آپ لاہور آئے تو برادر علی احمد ڈھلوں نے ان کے ساتھ ایک مکالمے کا اہتمام کیا، یہ مکالمہ یا نشست بنیادی طور پر عباسی صاحب کے تیس سالہ سیاسی کیریئر کی کہانی تھی، ایک ایسا سیاست دان جو زیرو سے شروع ہوا اور وزارت عظمیٰ تک پہنچا ہو، اس کی کہانی دل چسپ بھی ہوگی اور حیرت انگیز بھی، ایسے شخص کی کہانی کے پیچھے سینکڑوں دیگر کہانیاں بھی پوشیدہ ہوتی ہیں، یہ کہانیاں تاریخ اور صحافت کے طالب علموں کے لیے دل چسپی کا باعث بنتی ہیں۔

شاہد خاقان عباسی نے1988ء میں سیاست کی پرخار وادیوں میں قدم میں رکھا اور ااس دوران انھوں نے دس الیکشن لڑے، وہ اس تیس سالہ سفر پر بات کرتے ہوئے بار بار تلخ ہو رہے تھے، وہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سے سخت نالاں نظر آئے، ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون نے جتنی بھی غلطیاں کیں، میں ان سب میں برابر کا حصہ دار ہوں کیوں کہ میں اس کا حصہ رہا، میں واحد سیاست دان تھا جسے نون لیگ نے موروثی سیاست سے نکل کر ایک بڑا عہدہ دیا تھا، یہ عہدہ ڈیل کا نتیجہ تھا اور نہ ہی کسی ڈھیل کا، اس میں کوئی دو رائے نہیں، نون لیگ نے خاندان کے علاوہ کبھی کسی کا نہیں سوچا، یہ گروہ ہمیشہ موروثی سیاست کا علم برداررہا۔

عباسی صاحب نے انتہائی وضاحت سے پاکستان کی سیاسی و معاشی صورت حال پر مکالمہ کیا، ان کی گفتگو کا مرکزی نکتہ آئین کی بحالی تھا، وہ اپنے اداروں سے بھی مایوس تھے اور سیاسی نظام سے بھی، انھوں نے نیب، فوج اور عدالتوں کے کردار پر بہت سارے سوال اٹھائے، وہ عمران خان سے بھی نالاں تھے کہ انھوں نے بھی نظام کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کیا، وہ اُس بل پر بھی شدیدغصے میں تھے جو عمران خان کا جلسہ روکنے کے لیے راتوں رات پاس کیا گیا، وہ بلاول کے جعلی انقلابی ہونے پر بھی سیخ پا ہو رہے تھے، انھوں نے حکومتی اتحاد کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور نوجوانوں کی بے کسی پر بھی حکومتی بے حسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

میں شاہد خاقان عباسی کی بہت ساری باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ نظام اس قدر فرسودہ اور خستہ حال ہو چکا ہے کہ اس نظام کو بچانے کے لیے ہمارے پاس "چارٹر آف ڈیموکریسی" کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے، ہمارے اداروں نے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر اس نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، من پسند آدمی کو طاقتور بنانے اور نا پسند آدمی کو کمزور کرنے کا سلسلہ گزشتہ چالیس پچاس سال سے جاری ہے، عباسی صاحب کا یہ جملہ"کہ میں نے دس الیکشن لڑے ہیں، میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ایک الیکشن بھی شفاف نہیں تھا"انتہائی معنی خیز اور قابلِ تشویش ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ عباسی صاحب جس نظام سیاست کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، یہ تیس سال اسی سسٹم کا حصہ کیوں رہے؟ اگر نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے باریاں لیتے ہوئے اس نظام کو کھوکھلا کیا ہے تو پھر یہ بتایا جائے کہ اس نظام کو بہتر کون کرے گا؟ ایک سابق وزیر اعظم جب اداروں کی خستہ حالی کا واویلا کرتا ہے تو دل دکھی بھی ہوتا ہے اور حیران بھی، اگر آپ نے اپنے دور میں نظام کو بہتر کیا ہوتا تو جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کاشور نہ ہوتا۔

آج ہم سیاسی طور پر جہاں کھڑے ہیں، اس کا الزام بہرحال اس ہر شخص پر جاتا ہے جو کسی طرح سے بھی اس نظام کا حصہ رہا ہے، عباسی صاحب کا یہ کہنا"کہ گزشتہ دو سال سے صرف ایک شخص کو گرانے کے لیے پورا سسٹم تباہ کر دیا گیا ہے"قابل توجہ ہے، عباسی صاحب یہ مشورہ اپنے لیگی دوستوں کو دیں کہ عمران خان سے نفرت کی بنیاد پر جو کچھ کیا جا رہا ہے، یہ سب کل آپ کے گلے پڑ جائے گا، جو بل تحریک انصاف کو شکست دینے کے لیے پاس کیے جا رہے ہیں، یہ سارے کل آپ پر بھی لاگو ہوں گے، جب طاقت کا محور تبدیل ہوگا تو پھر دیکھیں گے کہ آرٹیکل چھے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ہم جب اقتدار میں ہوتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ پانچ سال بعد ہم اپوزیشن میں ہوں گے، تب ہمارا کیا بنے گا؟

میں نے عباسی صاحب سے دو سوال کیے اور دونوں کا جواب ایک ہی تھا، آئین کی بحالی۔ پہلا سوال، آج آپ نیب، فوج اور عدلیہ سے نالاں ہیں، ان کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں، اگر کل آپ کو بھی انہی اداروں کی بیساکھی استعمال کرنی پڑی تو پھر آپ کیا کریں گے؟ دوسرا سوال، آپ نوجوانوں کے بارے بہت پریشان ہیں کہ انھیں تباہ کر دیا گیا ہے، آپ کی جماعت کے پاس نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار کے لیے کیا منصوبہ ہے؟

عباسی صاحب نے اتنا ہی جواب دیا کہ جب تک آئین بحال نہیں ہوگا، تب تک یہ نظام ایسا ہی رہے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ آئین کی بحالی کس کا کام ہے؟ عباسی صاحب جب ججز کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ "ان کی تقرری شفاف بھی ہونے چاہیے اور پبلک کے سامنے بھی"، تو یہ سارے کام کون کرے گا؟ آپ اس سسٹم کی نااہلی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ہمارے دونوں ایوان، پچھلے تین دن سے اس بات پر غور و خوض کر رہے ہیں کہ "ججز کی ریٹائرمنٹ عمر اڑسٹھ سال کیسے کی جائے "، کیا ججز کی مدت ملازمت اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ تین دن سے اس ایک نکتے پر سوچا جا رہا ہے؟ اگر دو کروڑ چالیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں تو اس کا الزام کسے دیا جائے؟

اگر عدلیہ شفاف نہیں، نیب کرپٹ ہے، پولیس کلچر تباہ ہے، تو اس سب کا الزام کسے دیا جائے؟ آج عباسی صاحب نے نئی پارٹی بنا لی ہے تو یہ پارٹی بھی اقتدار میں آنے کے لیے وہی راستہ لے گی، جو باقی سب لیتے رہے؟ ناراض سیاست دان اگر اپنی ایمانداری اور مخالف پارٹی کی بے ایمانی کی کہانیاں سناتا رہے گا تو پھر ہمیں بتایا جائے اس سسٹم کو ڈی ریل کس نے کیا ہے؟ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سارا الزام اپوزیشن پر لگا رہی ہے اور اپوزیشن سارا الزام حکومتی اتحاد پر، تو جمہوریت کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے؟