ایکسپو کا سالانہ کتاب میلہ ختم ہوا تو پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ شروع ہوگیا، کتاب سے محبت کرنے والوں کا جوش و جنوں دیکھنے والاتھا، دونوں میلوں میں لاکھوں کی تعداد میں کتب فروخت ہوئیں، یہ ایک ریکارڈ تعداد ہے کسی بھی شہر کے لیے کہ ایک ماہ میں لاکھوں کی کتب فروخت ہوں۔ ہمیں نئی نسل سے یہ شکوہ رہتا ہے کہ یہ کتاب سے دور ہو گئے ہیں، یہ بچے شاپنگ پر ہزاروں روپے اڑا دیتے ہیں، ان کے لیے برگر اور شوارما اہم ہے، کتاب نہیں۔
یہ باتیں ایک حد تک درست ہو سکتی ہیں مگر سو فیصد نہیں، یہ قطعاً ضروری نہیں کہ جو بچہ شاپنگ اور فاسٹ فوڈ کا شوقین ہے، وہ کتاب نہیں پڑھتا، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر مغرب کو کہاں رکھیں گے، وہاں تو کتب بھی فروخت ہوتی ہیں اور اخبار بھی، وہاں فاسٹ فوڈ کا بھی کلچر ہے اور مہنگی شاپنگ کا بھی، وہاں کتب خانے بھی آباد ہیں اور ہائیپر مارکیٹیں بھی، لہٰذا اس دلیل میں ذرا بھی دم نہیں کہ جو بچہ برگر کھاتا ہے، وہ کتاب نہیں پڑھتا یا جو بچہ مہنگی شاپنگ کا شوقین ہے، وہ کتاب کا نہیں۔
ایکسپوکا کتاب میلہ ہو یا پنجاب یونیورسٹی کا کتاب بازار، کتب فروش خوش بھی ہیں اور مطمئن بھی، کتاب میلے کے منتظمین بھی مبارک بادیں وصول کر رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہماری نئی نسل کتاب کلچر سے واقف بھی ہے اور کتاب سے محبت بھی کرتی ہے، بات صرف ترجیحات کی ہے۔ جن گھروں اور تعلیمی اداروں میں کتاب بینی کا درس دیا جاتا ہے، وہاں کے بچے کتب سے محبت کرتے ہیں اور جن گھروں میں کتاب اور اخبار کا ماحول نہیں ہے، جن تعلیمی اداروں میں کتب خانے نہیں یا ان کی تبلیغ نہیں دی جاتی، وہاں کتب کلچر کا ماحول نہیں ہوگا۔
کتاب کا پہلا درس گھر سے ملتا ہے اور دوسرا تعلیمی اداروں سے، آپ جن بچوں سے کتاب نہ پڑھنے کا شکوہ کرتے ہیں، ان کے گھروں اور تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں، آپ جان جائیں گے کہ ان کی کتاب سے دوری کی وجہ کیا ہے۔ ہم اپنے گھروں میں سوئمنگ پول، جم اور منی سینما ہال تک بنا دیتے ہیں مگر ایک چھوٹی سی لائبریری نہیں بنا سکتے، ہم اپنے گھروں میں ایک اخبار تک لگوانے کے روادار نہیں مگر کیبل، ٖڈش انٹینا اور وائی فائی کی سہولیات انجوائے کرنا چاہتے ہیں، میں قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اپنے گھروں کو جدید سہولیات سے آراستہ نہ کریں، میں سوئمنگ پول، جم اور منی سینما کی بھی مخالفت نہیں کر رہا، میں تو آپ سب کو اس ماحول کی جانب واپس لانا چاہ رہا ہوں جس سے ہماری اقدار جڑی ہیں، جب ہم اپنی نئی نسل سے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ کتاب نہیں پڑھتے تو کیا ہم نے کبھی ایک بار بھی سوچا کہ ہم انھیں گھروں میں جو ماحول دے رہے ہیں، اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔
گھروں کے بعد آپ تعلیمی اداروں کو دیکھ لیں، جن تعلیمی اداروں کو آپ ہزاروں، لاکھوں روپیہ دیتے ہیں کہ وہ آپ کے بچوں کی تربیت کریں، اگر وہ بڑے تعلیمی ادارے آپ کے بچوں کو کتاب سے محبت نہیں سکھا سکتے، آپ کے بچوں کو اپنی اقدار سے متعارف نہیں کروا سکتے تو آپ بتائیں، ان تعلیمی اداروں کی اہمیت کیا ہے۔ اس سے بہتر تو وہ سرکاری تعلیمی ادارے ہیں جہاں کم از کم لائبریری پیریڈ تو ہوتا ہے، بچے لائبریری میں جا کر کتابیں پڑھیں، نہ پڑھیں، کتب کا لمس تو لیں گے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ لمس، محبت کی ابتدائی سیڑھی ہوتی ہے، سرکاری ادارے کم از کم اس لمس تک رسائی دیتے ہیں، کتاب اور اخبار کا پہلا لمس ہی جنوں کا باعث بنتا ہے۔
ہماری نئی نسل، کتاب کی ہارڈ کاپی سے "ڈیجیٹل بک "پر منتقل ہوگئی، خبر کا میڈیم بھی تبدیل ہوا کیوں کہ" ڈیجیٹل ایرا" نے ہمیں آن لائن کر دیا، کتاب کی فروخت کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا میڈیم بدل گیا اور اس میں مضائقہ بالکل نہیں، ہماری نئی نسل نے اس آواز کو جلدی سن لیا اور خود کو ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ کیا، کتاب آئن لائن بھی پڑھی جا رہی ہے اور ہارڈ کاپی میں بھی، اخبار کی بھی یہی صورت ہے، میڈیم بدلنے کے ساتھ اس کی سرکولیشن کم ہوگئی، پھر خبر کا مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ ہم اخبار سے سفر کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا اور اب ڈیجیٹل میڈیا تک پہنچ گئے، یہ سفر بھی حیرت ناک ہے، اخبار بینی میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی تو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک سرکاری سرپرستی کی بات ہے تو اس میں کسی دو رائے کہ ان کی ترجیحات میں کتاب کہیں بھی نہیں، کتاب سے شعور آتا ہے اور اگر اس عوام میں شعور آ گیا تو یہ اپنے حقوق کی بات کریں گے، واویلا مچائیں گے، دھرنا دیں گے، سوالات کریں گے اور طاقتور ہمیشہ سوال سے گھبراتا ہے، مکالمے سے اس کی جان جاتی ہے لہٰذا اس ملک کا طاقتور طبقہ کبھی بھی شعور کا راستہ ہموار نہیں کرے گا۔ یہ طبقہ تو پہلے ہی نوجوانوں سے بہت خائف ہے، سیاسی شعور نے نوجوانوں کو اس سسٹم کے خلاف جتنا مشتعل کر دیا ہے، یہ طاقتور طبقہ مزید کسی شعور کی طرف نہیں جانا چاہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ نے مختلف چوکوں اور چوراہوں میں درجن سے زائد فوڈ اسٹریٹس تو بنوا دیں مگر پورے لاہور میں ایک بھی کتاب اسٹریٹ نہیں بنی، پرانی انارکلی کا کتاب بازار بھی تباہی کے دہانے پر ہے، ایسے میں کتاب میلوں کا کلچر ان لوگوں کو منہ توڑ جواب ہے جو نوجوانوں پر قدغن لگانا چاہتے ہیں، ان کودولے شاہ کا چوہا بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہ قوم اور نوجوان وہ سوچیں جو ہم کہیں، وہ دیکھیں جو ہم دکھائیں اور وہ بولیں جو ہم بلوانا چاہیں، مجھے خوشی ہے کہ جامعہ پنجاب کے کتاب میلے میں نوجوانوں نے تین دن میں دو لاکھ سے زائد کتب خریدیں اور طاقتور طبقوں کو پیغام پہنچایا کہ ہم اپنی مرضی سے پڑھیں گے، سوچیں گے، دیکھیں گے اور بولیں گے کیوں کہ ہم ڈیجیٹل بچے ہیں، ڈیجیٹل بچوں کو جلدی شکست نہیں دی جا سکتی۔