الیکشن سے چوبیس دن پہلے پاکستان کی سب سے مقبول اور اہم ترین پارٹی سے بلے کا نشان چھین لیا گیا، اس کے امیدواروں کو ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر سے اٹھایا گیا، پارٹی کے چیئرمین کے گھر چھاپہ مارنا اور اس کی بیوی اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ملک بھر سے ایک ہی پارٹی کے امیدواروں سے نہ صرف کاغذات نامزدگی چھینے گئے بلکہ انھیں ہراساں کیا گیا، پارٹی کے بانی چیئرمین سمیت درجنوں اہم قائدین کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے، وجہ کوئی بھی ہو لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صرف ایک شخص کو کامیاب کرنے کے لیے پورے سسٹم پر سوالیہ نشان لگ گیا۔
یہ ہے میرے ملک کی لولی لنگڑی جمہوریت جس کے لیے محترم چیف جسٹس بھی پریشان دکھائی دیئے۔ دوران سماعت جب چیف جسٹس فرما رہے تھے کہ" مجھے لولی لنگڑی نہیں بلکہ پوری جمہوریت چاہیے "، تو پوری قوم اور پورا سسٹم قہقے لگا رہا تھا۔ کیسی جمہوریت، کون سی جمہوریت، کون سے الیکشن اور کون سے ادارے، کیا واقعی محترم چیف جسٹس کو نہیں معلوم کہ ملک کہاں کھڑا ہے؟ مسلم لیگ نون سے جب سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ الیکشن شفاف ہوں گے تو وہ کہتے ہیں دو ہزار تیرہ میں بھی ایسے ہی ہوئے تھے، کوئی ان دانشوروں سے پوچھے کہ کیا دو ہزارہ تیرہ میں شہباز شریف سمیت لیگی قائدین کو الیکشن سے بیس دن پہلے گھروں سے اٹھایا گیا؟
کوئی لیگی دانش وروں سے پوچھے کہ کیا الیکشن سے قبل انٹرا پارٹی کا بہانہ بنا کر ان سے شیر کا نشان چھینا گیا؟ چلیں یہ بھی چھوڑیں، آپ صرف نون لیگی قائدین سے یہ پوچھ لیں کہ شاہد خاقان عباسی سمیت درجنوں لیگی رہنما جماعت کو خیر باد کیوں کہہ گئے؟ وجہ صرف ایک ہے کہ انھیں انٹرا پارٹی الیکشن سے اختلاف تھا۔ پارٹی چھوڑنے والوں نے ببانگ دہل کہا کہ ہم کب تک ان کی نسلوں کی غلامی کرتے رہیں گے، کیا پارٹی میں سیکرٹری جنرل، چیف آرگنائزر، صدر کے عہدے کے لیے شہباز، مریم، اسحاق ڈار، حمزہ اور احسن اقبال کے علاوہ کوئی قابل شخص نہیں تھا؟
یار کیسے لوگ تم، کیا آپ کو ابھی تک یہی لگتا ہے کہ قوم اندھی ہے، سسٹم اور ادارے ہمارے ہیں، ہم جو چاہیں، جیسا چاہیں کر سکتے ہیں، کیا آپ ان اوچھی حرکتوں کے بعد بھی شفاف الیکشن کروا سکتے ہیں، کیا چیف جسٹس اس تماشے کا نوٹس لیں گے جو گزشتہ دو ماہ سے وطنِ عزیز میں ہو رہا ہے، دنیا کا کوئی قانون کسی بھی شہری سے اس کے بنیادی حقوق نہیں چھین سکتا، اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر1948ء ہو یا پھر پاکستان کا آئین 1973ئ، کوئی ادارہ، کوئی شخص یا پھرکوئی گروہ، کسی بھی شہری سے الیکشن لڑنے، آزادی سے جینے اور بات کرنے کا حق نہیں چھین سکتا۔
آٹھ فروری کو الیکشن اگر ایسے ہی افسوس ناک اور تکلیف دہ ماحول میں ہوتے ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پوری دنیا میں ہم ایک ناکام ریاست کے طور پر جانے جائیں گے، جو ملک یا جو سسٹم اپنے شہریوں وک شفاف انتخابات تک نہیں دے سکتی، کیا اس قوم کو زندہ رہنے کا حق ہے؟ اکانومسٹ میں چھپنے والا عمران خاں کا آرٹیکل راتوں رات ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، کیوں؟ کیوں کہ اس مضمون نے ہمارے سسٹم کو برہنہ کر دیا، اس مضمون سے ہماری کھوکھلی جمہوریت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔
گزشتہ چند ماہ میں یہاں جو کچھ ہوا، اس کے بعد اس قوم سے اس بات کی توقع رکھنا کہ یہ اداروں کے فیصلوں کو سپورٹ کریں، یہ شفاف انتخابات میں اپنا کردار ادا کرے، یہ جمہوریت کو پنپنے میں الیکشن کمیشن، اعلیٰ عدلیہ، نیب اور دیگر اداروں کی مدد کرے تو یہ ہماری خوش فہمی ہے، عوامی سروے اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ یہ عوام پاکستان کے اداروں سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہے۔
جب چیئرمین الیکشن کمیشن، چیئر مین نیب، چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلوں سے عوام مایوس ہو جائے تو پھر آپ سمجھ جائیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں ڈوبنے میں کتنا وقت باقی ہے، پاکستان کے عوام اپنے معزز اداروں کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ "ہم ڈوب رہے ہیں ابھی، ڈوبے تو نہیں"۔
اندھیروں میں لگنے والی عدالتوں سے کیا روشن فیصلوں کی توقع کی جا سکتی ہے، کیا کسی بھی سرکاری ادارے کے سربراہ یا پھر نگران حکومت کو جنرل الیکشن میں جانبدار ہونا چاہیے یا پھر غیر جانبدار ی سے سسٹم کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے؟ میرے خیال سے لولی لنگڑی جمہوریت سے چھٹکارے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے مگر صد حیف الیکشن سے ٹھیک چوبیس دن پہلے نہ صرف اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں بلکہ نام نہاد شفاف انتخابات کا نتیجہ بھی معلوم ہو چکا ہے، ایسے میں بہتر تھا کہ قوم کا اربوں روپے لگانے کی بجائے ملک چند"روشن"کرداروں کے حوالے کر دیا جائے اور قوم کو بھاشن دیا جائے کہ پانچ سال انھیں بھگتیں۔
ہمارے سیاست دان کب سمجھیں گے کہ یہ صرف مہرے ہیں، کٹھ پتلیاں ہے، شطرنج کے اصل کھلاڑی توکوئی اور ہیں، وہ ہر پانچ سال بعد ایک پارٹی کو الیکشن سے باہر کرتے ہیں اور دوسری کو جتوا دیتے ہیں، یہ تماشا آخر کب ختم ہوگا؟ آخر کب سیاست دان اپنی اہمیت کو سمجھیں گے، یہ لوگ کب الیکشن سے ہٹ کر صرف اور صرف ملک اور اپنے داغ دار کردار کے بارے سوچیں گے، کیسا عجیب ملک ہے کہ جہاں شخصیات ہوں یا سیاسی پارٹیاں، سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں، کوئی عوام اور جمہوریت کو نہیں سوچ رہا، شکر ہے چیف جسٹس صاحب کو خیال آیا اور انھوں نے دورانِ سماعت فرمایا کہ " ہمیں پوری جمہوریت چاہیے، لولی لنگڑی نہیں"۔