سہ ماہی" معاصر" انٹرنیشنل کااجرا 1979ء میں ہوا، یہ وہ دور تھا جب لاہور سے احمد ندیم قاسمی" فنون"، سرگودھا سے ڈاکٹر وزیر آغا "اوراق" اور الہ آباد سے شمس الرحمن فاروقی"شب خون"نکال رہے تھے، ان مجلوں کی حکمرانی ادبی دنیا پر قائم تھی اور برصغیر سمیت دنیا بھر میں اردو قارئین کی ایک کثیر تعداد مذکورہ تین مجلوں سے وابستہ تھی۔ اسی زمانے میں محترم عطاء الحق قاسمی کی ادارت میں سہ "معاصر"نے اپنے قلمی سفر کاآغاز کیا اور اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔
اس مجلے کو آغاز ہی میں جن قدآور قلم کاروں کی قلمی معاونت میسر رہی، ان میں محمد خالد اختر، احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد، ممتاز مفتی، کرنل محمد خان، اشفاق احمد، بانوقدسیہ، انتظار حسین، انیس ناگی، ضمیر جعفری، ڈاکٹر سلیم اختر، منیر نیازی، احسان دانش، جمیل ہاشمی، رضیہ فسیح احمد اور سراج منیر سمیت کئی نابغہ روزگار شخصیات شامل تھیں۔ یہ پرچہ عہد ساز تخلیق کاروں کی قلمی معاونت کے ساتھ وقت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ تھے اور ایک طویل عرصہ فنون، اوراق اور شب خون کے ساتھ معاصر کا ذکر آتا رہا۔ بعض ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر یہ پرچہ بھی دیگر کئی اہم ادبی مجلوں کی طرح جاری نہ رہ سکا، اس بندش سے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اردو کے قارئین بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ اب پاکستان میں ادبی جرائد کی فہرست بنانا شروع کریں تو دو چار کے بعد سوچنا پڑ جاتا ہے۔
جامعات سے سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے ادبی جرائد کو ہم اس فہرست میں اس لیے شامل نہیں کر رہے کہ ان کی شرائط، عوامی پرچے سے مختلف ہوتی ہیں اور وہ ایک خاص نوعیت کے مضامین ہی شائع کرتے ہیں۔ ماہ نو، یہ سرکاری پرچہ بھی ایک عرصے سے شائع ہو رہا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں شائع ہونے والے پرچوں کی حدود و قیود کے بارے کسی بھی طرح کی رائے دینے سے قاصر ہوں۔ مادیت پرستی کی دوڑ دور میں، جب میڈیا ہائوسز اور پرنٹنگ پریس شدید خسارے سے دو چار ہیں، ایسے میں ادبی رسائل و جرائد کا تسلسل سے اجرا، جہادِ عظیم ہے، ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ادبی مجلوں کا شدید قحط نظر آتا ہے، آپ قحط الرجال، کے ساتھ قحط الجرائد، بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس علمی و ادبی قحط میں"معاصر"انٹرنیشنل کی بارِدگر اشاعت سے ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
گزشتہ ہفتے جب محترم قاسمی صاحب کی طرف سے اس اہم ترین مجلے کا تازہ شمارہ موصول ہوا تو خوشی کی انتہا نہ رہی، مضامین اور تخلیقات کے انتخاب سے لے کر اس کی اشاعت تک، تمام مراحل انتہائی محنت اور خوش اسلوبی سے طے کیے گئے تھے، تخلیقات کی فہرست پر روشنی ڈالیں تو ہر تحریر، دوسری سے مختلف اور جاندار تھی اور ایک بڑے ادیب کی سرپرستی میں شائع ہونے والے مجلے کی یہ خوبی تو بہرحال ہونی چاہیے تھی۔ مقالات و مضامین کے حصے میں احمد جاوید صاحب کا مضمون محمد سلیم الرحمن کی امیجری، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھ جیسا ایک عام قاری بھی اس سے لطف اندوز ہوا ہے۔
ڈاکٹر انوار احمد، حمید شاہد اور ڈاکٹر ضیاء الحسن کے مضامین نے اردو تخلیق و تنقید کے کئی اہم پہلوئوں کی جانب ہماری توجہ مبذول کروائی ہے، ضیاء صاحب کا مضمون جس میں ترکی میں ناول کی روایت پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی، خاصے کی چیز ہے۔ اس مجلے کا ایک اہم ترین مضمون ڈاکٹر ناصر عباس نیر کا ہے جو مصنوعی ذہانت بہ مقابلہ انسانی تخلیل، کے عنوان سے ہے۔ یہ موضوع اب کانفرنسوں اور سیمینارز میں زیر بحث آ یا ہے۔ ہمیں یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ آیا آنے والا دور جس میں مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے ترقی کر چکی ہوگی، ہمارا ادیب یا تخلیق کار کہاں کھڑا ہوگا، کیا اس کا لکھا پڑھا بھی جائے گا یا پھر محض کاغذی کی ردی بنے گا۔ اس نئے اور منفرد موضوع پر ناصرعباس نیر صاحب کے مضمون نے چونکا دیا۔
خاکہ نگاری کے ضمن میں اصغر ندیم سید، منیر نیازی اور عطاء الحق قاسمی کے خاکے باکمال ہیں، سب خاکوں پر الگ سے بات کرنا ممکن نہیں، ہاں اصغر ندیم سید نے کمال احمد رضوی سے تعلق اور ان کے کام کو جس احسن طریقے سے ڈسکس کیا، وہ قابل داد ہے۔ اس شمارے میں ظفر اقبال، فیصل عجمی، نذیر قیصر اور قمر رضا شہزاد کے لیے الگ الگ گوشہ بھی مختص کیا گیا جس ایک بڑے تخلیق کار کی طرف سے اپنے عہد کے لوگوں کو خراج تحسین ہے۔ اس مجلے میں ہمارے انقلابی ادیب وجاہت مسعود کی طرف سے آپ بیتی کی شمولیت نے بھی بڑا لطف دیا۔ احمد ندیم قاسمی پر حفیظ خان، غلام احمد پرویز پر ظفر سپل اور ادبی سماجیات پر عمران ازفر کا مضمون پڑھنے لائق ہے۔ ترجمے کے حصے نے بہت متاثر کیا، خاص کر مایا آنجلو اور جیفر میکڈینل کی نظموں کے تراجم جو عنبرین حسیب عنبر نے کیے۔
ڈاکٹر نجیب جمال کا یگانہ پر تحقیقی و تنقیدی کام ہمیشہ زیر بحث رہا، اس کی بنیادی وجہ اس کام کی انفرادیت ہے۔ اس شمارے میں یگانہ پر ایک اہم باب بھی شامل ہے جس کا عنوانیگانہ لاہور میں، ہے، یہ مضمون یگانہ شناسی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ محمد اظہار الحق، علی محمد فرشی، فرخ یار سمیت درجن سے زائد شاعروں کی نظمیں اور سحر انصاری، خورشید رضوی، انور شعور، حمیدہ شاہین اور عرفان صدیقی کی غزلوں نے بھی اس شمارے کی اہمیت کو دوچند کیا ہے۔ میں اس شمارے کے معاون مدیران محترم اقتدار جاوید اور ڈاکٹر عائشہ عظیم کا ممنون ہوں کہ انھوں نے انتہائی محنت سے اس مجلے کو تیار کیا اور قاسمی صاحب کی سرپرستی میں اسے اردو کے قارئین تک پہنچایا۔