یہ پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی کا واقعہ ہے، استاد محترم نے کلاس پڑھاتے ہوئے گریجویشن کے طالب علموں سے سوال کیا، آپ کا پسندیدہ گلوکار کون ہے، بہت سے طالب علموں نے جواب دینے کے لیے ہاتھ بلند کیا، استاد نے ایک طالبہ جو لباسِ فرنگی میں ملبوس تھی، جواب پوچھا، اس طالبہ نے نہ صرف اپنے پسندیدہ گلوکار کا نام بتایا تھا بلکہ اس کے مشہور گانے، مشہور البم اور اس کی نجی زندگی کو بھی انتہائی تفصیل سے بیان کر دیا۔
استاد نے طالبہ کا جواب سنا، اسے بیٹھنے کا حکم دیا اور اسی کلاس سے دوسرا سوال کیا، کیا کوئی نبی آخرلزمان حضرت محمد ﷺ کے بچوں کے نام بتا سکتا ہے؟ کلاس روم میں سناٹا چھا گیا، استاد نے اپنا سوال دوہرایا مگر جواب مسلسل خاموشی تھا۔ یہ واقعہ مجھے ایک بڑی اور تاریخی یونیورسٹی کے ایک استاد نے بتایا، جس کلاس سے یہ سوال کیا گیا تھا، وہ آئی آر کی کلاس تھی، وہاں بیٹھے طالب علموں کی تعداد تین درجن سے زائد تھے، کلاس میں تہذیب فرنگی کے دل دادہ بھی بیٹھے تھے اور مشرقی تہذیب کے نمائندے بھی مگر وہ سوال جو انتہائی بنیادی نوعیت کا تھا، کوئی جواب دینے کو تیار نہیں تھا۔
میں نے ایسی ہی ایک پریکٹس کئی مرتبہ اپنی کلاسز میں بھی کر رکھی ہے، جواب میں مجھے بھی ہمیشہ خاموشی ملی۔ مثلاََ میں نے ایک مرتبہ بچوں سے کامیاب انسان کی تعریف پوچھی تو ننانوے فیصد طالب علموں کی رائے میں ایک کامیاب طالب علم وہ ہوتا ہے جس کے پاس اچھی نوکری ہو، بے تحاشا دولت ہو اور زندگی میں سکون ہی سکون ہو۔ میں بہت حیران ہوا کہ ہم اپنی کلاسز میں دوران گفتگو جو نصیحتیں کرتے ہیں، ہمارے بچوں پر اس کا ذرا بھی اثر نہیں ہوتا، ہم بچوں کو جیسا بنانا چاہتے ہیں، ہمارے بچے ویسا بالکل بھی نہیں بننا چاہتے، ان کے نزدیک کامیابی کی تفہیم بالکل مختلف ہے۔
ایک استاد جب کلاس میں اپنے طالب علموں کو مشرقی کلچر اور مشرقی تہذیب کی کہانی سناتا ہے تو کلاس میں بیٹھے درجنوں طالب علم اس پر قہقہ لگاتے ہیں، وہ ایسی کسی تہذیب کو اپنانا نہیں چاہتے جس کا تعلق مذہب سے ہے یا پھر تربیت سے، کلاس پڑھانے والا استاد سر توڑ کوشش کے باوجود اپنے طالب علموں کو مغربی تہذیب کے نقصانات سے آگاہ نہیں کر سکتا، طالب علم صبح سے شام تک سوشل میڈیا، ٹی وی ڈرامے، فلموں اور رسم و رواج سے جو کچھ سیکھ رہے ہیں، یہ تعلیم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
ماڈرن ازم کی دوڑنے ہماری نئی نسل کو مشرقی تہذیب و ثقافت اور مشرقی بودو باش سے بہت دور کر دیا ہے، یہ دوری ہماری اگلی نسلوں کو ورثے میں مل رہی ہے، وہ کینسر جو مغربی کلچر کو پروان چڑھانے والے چند تعلیمی اداروں نے وطن عزیز کی رگوں میں شامل کیا، اس کے نقصانات بہرحال شروع ہو چکے۔
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ آپ اپنے بچوں کو جدید علوم اور جدید نظام تعلیم سے دور رکھیں مگر ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ ایسے نظام تعلیم پر بات ضرور کریں جس نے ہمارے بچوں کو اس ماحول سے دور کر دیا ہے، ایک ایسا نظامِ تعلیم جس نے بچوں سے سوال کرنے کی بھی آزادی چھین لی اور اپنی مرضی سے سوچنے کی بھی، ہمیں ایک نظام کی اندھی تقلید پر مجبور کر دیا گیا ہے جو مادر پدر آزاد ہے۔ ماڈرن ہونا بری بات نہیں ہے، نئے علوم کو سیکھنا اور اسے اپنے لیے کارگر بنانا یقیناََ غلط رویہ نہیں ہے مگر ماڈرن ازم یا سیکولر ازم کی آڑ میں اپنے بنیادی عقائد و نظریات کو گالی دینا کہاں کی دانش مندی ہے۔
ہمارا شمار تیسری دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو اپنی سروائیوال کی جنگ لڑ رہے ہیں، انھیں قدم قدم پر ایسی طاقتوں سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے جن کا مقصد ترقی پذیر ملکوں اور غلام ملکوں سے ان کی شناخت چھیننا ہے، عالمی طاقتیں ہمیشہ سے ایک ایسے عالمی نظام کی خواہاں ہیں جس سے ترقی پذیر ممالک کی شناخت کو مجروح کیا جا سکے۔ اس نام نہاد نظام تعلیم نے پہلا حملہ مدارس پر کیا، مدارس کے نظام تعلیم کو نظام کہنہ کہہ کر نئی نسل کو متنفر کیا گیا، دوسرا حملہ مشرقی نظام تعلیم پر کیا گیا یعنی اردو میڈیم پر، یہاں بھی اردو یا دیگر علاقائی زبانوں کے خلاف تعصب کو پروان چڑھایا گیا اور اس کے مقابلے میں جو زبان لائی گئی، وہ انگریز ی تھی۔
ہم ایسے سادہ لوح تھے کہ ہم نے انگریزی کو ایسے اپنایا جیسے یہ ہماری اصل زبان تھی۔ ہم آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ کوئی بھی زبان، صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ پوری تہذیب ہوتی ہے۔ آپ جب اردو کو گالی دیتے ہیں یااسے تیسرے یا چوتھے درجے کی زبان قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنی تہذیب و ثقافت کو تیسرے یا چوتھے درجے کا کہہ رہے ہیں، ایسے ہی جب آپ کوئی بھی دوسری زبان اپنا رہے ہوتے ہیں تو وہ صرف زبان نہیں ہوتی بلکہ اس زبان سے وابستہ پورا کلچر ہوتا ہے۔
آپ زبان اپنانے کے ساتھ ساتھ اس زبان سے وابستہ پوری تہذیب کو خوش آمدید کہہ رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ اردو یا پنجابی، سندھی، پشتو یا بلوچی کو جب خدا حافظ کہنے کا سوچتے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ اس زبان سے وابستہ تمام رسم و رواج اور تہذیب کو اپنے گھر سے نکال رہے ہیں۔
میری اس کالم کے توسط سے مقتدر حلقوں اور والدین سے گزارش ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کے بارے میں سوچیں، اپنے بچوں کو ایسے خدشات سے دور رکھیں جو انھیں اپنے بنیادی عقائد و نظریات سے دور کر رہے ہیں، وہ تعلیمی ادارے جو مشرقی کلچر کا خون کر رہے ہیں، انھیں بھی آڑے ہاتھوں لیں اور نئے عالمی تعلیمی نظام کے سامنے خود کو سرنڈر مت کریں، جو قومیں دوسری قوموں کی زبان یا کلچر اپناتی ہیں، ان کا حشر تاریخ میں کبھی اچھا نہیں ہوا۔