ماہِ رمضان کے یہ تیس دن مسلمانوں کے لیے انتہائی عقیدت و احترام کے ہوتے ہیں، یہ اس ماہ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، اخوت اوررواداری کا درس دیتے ہیں، عبادات میں وقت گزارتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو صدقہ خیرات کرتے ہیں، دوسروں کے لیے آسانیاں بناتے ہیں مگرحیرت تو ان ذخیرہ اندوزوں اور تاجروں پہ ہے جو اس ماہ مبارک میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے، مسلمانوں کو لوٹنے اور تکلیف پہچانے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں، یہ لوگ سال کے گیارہ ماہ اتنا نہیں کماتے، جتنا اس ایک ماہ میں کما لیتے ہیں، کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں، نہ حکومت اور نہ ہی عوام کے حقوق کا واویلا مچانے والے دانش ور اور سوشل ایکٹوسٹ۔
کوئی سبزی فروش ہے یا پھل فروش، کوئی گارمنٹس کا کاروبار کرتا ہے یا ہائپر مارکیٹ چلاتا ہے، اس بابرکت مہینے میں سب کی موجیں لگ جاتی ہیں، تاجر برادران رمضان کا چاند نکلتے ہی پرانی ریٹ لسٹیں اتار پھینکتے ہیں، چیزوں سے پرانے "پرائس بیج" اتار کے نئے لگا لیتے ہیں اور سر پہ توپی، زبان پہ ذکر خدا اور ہاتھ میں تیز چھری ہوتی ہے جس سے غریب عوام کی کھال اتارتے ہیں۔ ممکن ہے تمام تاجر ایسے نہ ہوں مگر ہمارے ہاں کثرت ایسے ہی تاجران اور سبزی و پھل فروشوں کی ہے، یہ لوگ اس بابرکت مہینے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار آسان ہو سکے۔ رمضان بازاروں کے نام پر ریلیف کی بات کرنے والے بھی اسی صف میں کھڑے ہوتے ہیں، یعنی "ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود ایاز"۔
یہ صورت حال تازہ نہیں ہے، ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی ہو رہا ہے، تاجر برادری نے ماہِ رمضان میں ہمیشہ یہی کیا، رمضان بازاروں میں بھی ہمیشہ یہی ہوتا رہا، اگر کسی تاجر یا رمضان بازار میں پھل فروش سے بات کریں، کہ چاند رات یک دم ریٹ بدل کیسے گیا، آپ کو جواب ملے گا کہ"پیچھے سے ایسے ہی آ رہا ہے"اب پیچھے والو ں کو کون پوچھے گا، شاید خدا ہی۔
دنیا بھر میں ماہِ رمضان کا احترام کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ مغربی ممالک میں بھی رمضان آتے ہی مسلم کمیونٹی کے لیے ہائپر مارکیٹس، شاپنگ مالز اور اشیائے خوردونوش میں خصوصی ڈسکائونٹ لگا دی جاتی ہے تاکہ مسلم کمیونٹی اس مہینے کو باوقار انداز میں گزار سکے مگر حیف ہے مسلمان ممالک پر، جہاں ڈسکائونٹ تو کیا، ریٹ ہی ڈبل کر دیے جاتے ہیں، "یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود"۔
ایسی تکلیف دہ صورت حال میں اگر کوئی مسلمان اپنے کسی بھائی کی مدد کرنا چاہے بھی تو شاید نہ کر سکے، پاکستان میں ایک متوسط فیملی کا رمضان بہت مشکل ہوتا ہے، روزہ دار افطاری میں دو کھجوروں اور میٹھے پانی پر گزارا کرتا ہے، اگر زیادہ عیاشی کرے گا تو ساتھ میں ایک پلیٹ پکوڑے بنا لے گا، ایک غریب آدمی کے لیے فروٹ وغیرہ کا سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔
اس کے مقابلے میں پنجاب حکومت جس نے سترہ کروڑ سڑک پینٹ کرنے پر لگا دیے، بارہ سے پندرہ ارب قذافی اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش میں لگا دیے اور ظلم دیکھیں کہ یہ دونوں کارنامے ایک بارش کی مار نکلے، سترہ کروڑ کا رنگ بھی فیروز پور روڈ سے بہتا ہوا قصور جا چکا، پندرہ ارب والا قذافی اسٹیڈیم میں بارش میں جگہ جگہ سے ٹپک رہا ہے۔ یہ ہے میرے ملک کا خدا ترس حکمران جس نے اپنی نمودو نمائش میں کیا کچھ نہیں کیا۔
چلیں یہ تو پاکستان ہے، آپ سعودی عرب چلیں جہاں رمضان کا مہینہ آتے ہی عمرہ زائرین کے لیے تکلیفوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے جاتے ہیں، ہوٹلوں کے کرائے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں، غیر ملکی زائرین کے لیے شاپنگ تو کیا دو وقت کی روٹی تک مشکل بنا دی جاتی ہے، گاڑیوں کے کرائے بھی پہنچ سے دور ہو جاتے ہیں اور یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوتا ہے، وہاں انجمن تاجران تنی طاقتور نہیں، جتنی پاکستان میں، وہاں جتنا ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے، وہ حکومت کی جیب میں جاتا۔
وہاں زائرینِ عمرہ کے ساتھ رمضان کے مہینے میں جو ناانصافی ہوتی ہے، وہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت ہے، آج تک وہاں کسی تاجر نے اس پر آواز اٹھائی اور نہ کسی نے حکومتی رکن نے۔ ماہ رمضان میں اشیائے خوردونش اور سبزی و پھل فروشوں کی صورت حال اس سے زیادہ خوف ناک ہے، اگر سعودی عرب جسے اسلامی دنیا آپ سربراہ تسلیم کرتی ہے، وہاں حالات اتنے گھمبیر ہیں، تو پاکستان کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
پوری دنیا میں یہ مہینہ اس لیے بھی قابل احترام سمجھا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی عبادت کا مہینہ ہوتا ہے مگر ہم سب ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں، ایک دوسرے کے لیے سہولت پیدا کرنے کی بجائے تکلیف دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کما سکتے ہیں، ہم اپنے ہمسائے میں ایک جگ شربت بھیج کر، دو چار کھجوریں اور فروٹ چارٹ کی ایک پلیٹ بھیج کر کتنا زیادہ ثواب کما سکتے ہیں، شاید ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔
ہم نے بس اتنا کرنا ہے کہ جب افطاری بنائیں، ایک فرد کی زیادہ بنائیں، وہ افطاری اپنے کسی ایسے ہمسائے کے گھر بھیج دیں جس کے گھریلو حالات بہتر نہیں ہیں، اس عمل سے ہمارا تو شاید کچھ نہ جائے مگر اس ہمسائے کے بچوں کے چہرے پر جو خوشی آئے گی، سوچیں اس کا اجر کیا ہوگا۔ اس رمضان کو ایسے گزاریں کہ یہ آپ کی بخشش کا ذریعہ بن جائے، حقوق اللہ بہت اہم سہی مگر خدا نے حقوق العباد پر بہت زیادہ زور دیا ہے، رمضان میں خدا کے ان بندوں کا خیال کریں جو سفید پوش ہیں، روزے سے ہیں مگر حالات بہت مناسب نہیں، آپ خدا کے بندوں کا خیال کریں، خدا آپ کا خیال کرے گا۔